نااہل قرار دیے گئے ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی
امریکی ریاست مشی گن کی سپریم کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پرائمری الیکشن کی اجازت دے دی۔
امریکی میڈیا کے مطابق مشی گن کی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کو نااہل کرنے سے متعلق درخواست سننے سے انکار کردیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ بغاوت کیس میں ٹرمپ پر پابندی آئین سے متصادم ہے۔
مشی گن سپریم کورٹ کے ججز نے مختصر فیصلے میں کہا کہ ہم اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ پیش کئے گئے سوالات کا اس عدالت کے ذریعے جائزہ لیا جائے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیپیٹل حملے سے پیدا ہونے والی بغاوت کے الزامات کے باوجود ریاستی پرائمری میں حصہ لے سکتے ہیں۔
کولوراڈو کی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو پرائمری صدارتی الیکشن کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔
امریکی ریاست کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک اہم فیصلے میں چھ جنوری کو واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہل کی عمارت پر ہونے والے حملے میں ان کے کردار کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔
ریاستی سپریم کورٹ نے آئین میں بغاوت کی شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ برس کا صدارتی انتخاب ریاست میں نہیں لڑ سکتے ہیں۔
اس تاریخی فیصلے میں تین کے مقابلے چار ججوں نے فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ صدارتی امیدوار کے لیے اہل نہیں ہیں۔
یہ پہلا موقع تھا کہ جب امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کے سیکشن تین کو صدارتی امیدوار کو نااہل قرار دینے کے لیے استعمال کیا گیا ۔
سابق صدر ٹرمپ کے ایک ترجمان نے کولوراڈو کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ’’غیر جمہوری‘‘ قرار دیا تھا اور امریکی سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی دو تہائی اکثریت ہے۔
اسی سپریم کورٹ کے چھ جج دائیں بازو کی حمایت والے بعض فیصلے سنا چکے ہیں، جس میں گزشتہ برس کا اسقاط حمل کے حقوق کا بھی وہ اہم فیصلہ شامل ہے، جس میں رو بمقابلہ ویڈ والے تحفظ کو ختم کر دیا گیا تھا۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم نے 14 ویں ترمیم کا حوالہ دینے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ یہ ان لاکھوں ووٹروں کو ووٹ سے روکنے کی کوشش ہے، جن کے لیے ٹرمپ پہلی ترجیح ہیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ امریکی تاریخ میں ایسے پہلے صدارتی امیدوار ہیں، جنہیں امریکی آئین کی شاذ و نادر ہی استعمال ہونے والی شق کے تحت وائٹ ہاؤس کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
اس شق کے تحت ’’بغاوت پر اکسانے یا بغاوت کرنے‘‘ میں ملوث ہونے والے اہلکاروں کو سرکاری عہدہ سنبھالنے سے باز رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔
اس فیصلے کا اطلاق پانچ مارچ کو ریاست میں ہونے والے ریپبلکن کے پرائمری انتخاب پر پڑ سکتا تھا۔
امریکہ میں انتخابی پیش گوئی کرنے والے غیر جانبدار ادارے کولوراڈو کو ڈیموکریٹس کے لیے محفوظ مانتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ کی قسمت سے قطع نظر صدر جو بائیڈن ہی اس میں کامیاب ہوں گے۔
ٹرمپ سن 2020 میں کولوراڈو سے 13 فیصد پوائنٹس سے ہار گئے تھے اور انہیں اگلے برس کے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے اس ریاست کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
لیکن سابق صدر کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ مزید ریاستوں کی عدالتیں اور انتخابی اہلکار کولوراڈو کے اس فیصلے کی پیروی کر سکتے ہیں اور ٹرمپ کو ان ریاستوں سے باہر کر سکتے ہیں، جہاں صدر بننے کے لیے جیتنا لازمی ہے۔
واضح رہے کہ آئین کی 14ویں ترمیم کے سیکشن تین کے تحت ٹرمپ کو نااہل قرار دینے کے لیے ملک بھر میں درجنوں مقدمے دائر کیے گئے ہیں، اس لیے خطرہ اس بات کا ہے کہ انہیں دوسری ریاستوں میں بھی اسی طرح کے فیصلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ قانون کسی بھی ایسے شخص کو عہدے پر فائز ہونے سے روکتا ہے جس نے آئین کی ’’حمایت‘‘ کرنے کا حلف اٹھایا ہو اور پھر اس کے خلاف ’’بغاوت پر اکسانے یا بغاوت میں ملوث‘‘ ہوا ہو۔ امریکی خانہ جنگی کے بعد کی دہائیوں کے دوران اسے صرف چند بار ہی استعمال کیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.