Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم ہونے کا فیصلہ اگلے انتخابات میں لاگو ہوسکتا ہے، قانونی ماہر

پی ٹی آئی کو کوئی بھی نشان ملے، کوئی فرق نہیں پڑتا، رہنما ن لیگ
اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2023 11:19pm

سابق صدرسپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے بھی دیے جائیں تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئندہ الیکشن میں ہوگا۔ ن لیگ کے رہنما نہال ہاشمی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو کوئی بھی نشان ملے، کوئی فرق نہیں پڑتا، بلے کا انتخابی نشان پاکستان کیلئے تباہی کی علامت ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر عابد زبیری کا کہنا تھا کہ میں نے انٹراپارٹی الیکشن کے خلاف کیس دائر ہوتے پہلے کبھی نہیں سنا، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دیکھنا ہوگا کہ کیا الیکشن ایکٹ 209 اور 210 کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ جب عام انتخابت کا شیڈول جاری ہوجائے تو پھر الیکشن کمیشن کسی بھی جماعت کے لئے جو فیصلہ دے گی وہ اگلے الیکشن میں لاگو ہوگا، دوسرا نقطہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نےاپنے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، اس کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف اپیل کس نے کی، الیکشن کمیشن نے کس کی درخواست پر یہ فیصلہ دیا تھا۔

عابد زبیری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سے تلوار کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا تھا، انتخابی نشان پارٹی کی علامت ہوتی ہے، ووٹر انتخابی نشان کو دیکھ کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، انتخابی نشان تبدیل ہونے سے پارٹی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ن لیگ کے قائد نوازشریف کے کاغذات کو کسی پارٹی نےچیلنج نہیں کیا، کسی سیاسی لیڈر کی تاحیات نااہلی نہیں ہونی چاہئے، پارلیمنٹ میں کی گئی ترامیم سے ان تمام افراد کو فائدہ ہوگا جو گزشتہ 10، 10 سال سے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے تھے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما نہال ہاشمی

مسلم لیگ ن کے رہنما نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے، پی ٹی آئی کو کوئی بھی نشان ملے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلے کا انتخابی نشان پاکستان کیلئے تباہی کی علامت اور ہار کا نشان ہے۔

نہال ہاشمی کا کہنا تھا بلے کا نشان وہ نشان ہے جس نے پاکستان کو 44 مہینوں میں خارجہ پالیسی میں تنہا کردیا، پارلیمنٹ کو رسوا کیا، آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیریں، مہنگائی کا طوفان لایا، نوجوانوں میں بداخلاقی پھیلائی اور گالی گلوچ کو فروغ دیا، اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

لیگی رہنما نے کہا کہ پاکستان کو ایک عجیب تماشہ بنا دیا گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی کالج یونیورسٹی کا ٹورنامنٹ ہے، کبھی اس میدان میں کرکٹ کھیلنے والے اتر جاتے ہیں تو کہیں گلی ڈنڈا اور ہاکی کھیلنے والے، ہمیں قانون کی پیروی کرنی چاہئے، اگر قانون کہتا ہے کہ کسی کو 5 سال کےلئے نااہل کیا جائے تو کوئی فیصلہ اسے بڑھا نہیں سکتا۔

نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ بدنیتی تب شروع ہوئی جب نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے کیس میں بینچ میں ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ شامل تھے، انہوں نے نوازشریف کو تاحیات نااہل کیا، مریم نواز کو 7 سال نااہل کیا گیا، اور جہانگیرترین کو اس لئے نااہل کیا گیا کہ کیس برابر کرنا تھا، کسی شخص کی خواہش پر آئین و قانون کو نہیں بدلا جاسکتا، یہ عوام کا حق ہے کہ وہ کسے پارلیمنٹ میں لے جائیں اور کس کو باہر کردیں، انتخابات میں عوام جس کو مسترد کرتے ہیں وہ 5 سال کےلئے نااہل ہی ہوجاتا ہے۔

شرمیلا فاروقی

پروگرام میں بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کہ اس وقت صرف پیپلزپارٹی انتخابی مہم چلارہی ہے، اس کےعلاوہ کوئی انتخابی مہم نہیں چلارہا، تمام سیاسی جماعتیں ڈرائنگ روم کی سیاست کررہی ہیں۔

رہنما پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ کہیں کوئی جلسہ اور انتخابی سرگرمیاں نظر نہیں آرہیں، اور کہیں بھی انتخابات کا ماحول نظر نہیں آرہا، پی ٹی آئی اور ایم کیوایم کراچی میں جلسہ کیوں نہیں کرتی، ایک جماعت بیلٹ پر ڈاکا ڈالنے کی تیاری کر رہی ہے، لیکن باقی جماعتیں کہاں ہیں۔

شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے بھی بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی الیکشن میں حصہ لے، اگر تحریک انصاف نےالیکشن میں حصہ نہ لیا اور مقابلہ یکطرفہ ہوا تو انتخابات مشکوک ہو جائیں گے۔

رہنما پی پی پی نے کہا کہ بلاول بھٹو لیاری سے نہیں تو لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں، انہوں نے لاہور سے انتخابات میں حصہ لینے کا چیلنج قبول کیا ہے، اور وہ قمبر شہداد کوٹ اور لاڑکانہ سے بھی لڑرہے ہیں، لیاری میں تو کوئی بھی کھڑا ہو جائے الیکشن جیت جائے گا۔

شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کوئی بھی سیاسی رہنما جو عوام میں جاکر ان کا اعتماد جیتے ہیں ان سے ووٹ لے کر اسمبلی میں آتے ہیں، انہیں ایک فیصلے سے تاحیات نااہل کردینا کسی صورت درست نہیں، یہ زیادتی ہے، نیب نے اسفند یار ولی کیس میں 21 سال کی نااہلی کا قانون بنایا تھا، جسے سپریم کورٹ نے کم کرکے 10 سال کیا اور بعد میں یہ 5 سال ہوگیا۔

pti

PMLN

PPP

faisla app ka

Election 2024