بلوچی بولنے والے بزرگ کی ترجمانی حامد میر نے کیسے کی
اسلام آباد میں تربت سے آئے لانگ کے شرکاء کا بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے احتجاج جاری ہے۔ اس موقع پر ایک بلوچ بزرگ نے میڈیا سے بات کرنے کی کوشش کی تو اردو نہ آنے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس دوران سینئیر صحافی حامد میر بھی وہاں موجود تھے، جنہوں نے بزرگ کو بولنے میں پیش آرہی تکلیف کو دیکھتے ہوئے خود ان کے جملوں کا ترجمہ کرنا شروع کردیا۔
حامد میر نے میڈیا کو بتایا کہ بزرگ کہہ رہے ہیں کہ وہ تربت سے آئے ہیں، ان کا بیٹا فتح جان اسکول میں پڑھتا تھا جسے تربت سے اٹھا لیا گیا۔
خیال رہے کہ بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکاء اسلام آباد پریس کلب کے باہر دھرنا دیے ہوئے ہیں، احتجاج کے اس موقع پر اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری بھی موجود ہے۔
بی بی سی کے مطابق انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اس احتجاج میں شامل خواتین اور مظاہرین نے پریس کلب سے آگے جانے کی کوشش کی تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
اس موقع پر خواتین پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری بھی موجود ہے۔
اس موقع پر ترجمان اسلام آباد پولیسں کے مطابق ’نیشنل پریس کلب کے باہر گراؤنڈ میں 200 افراد موجود ہیں۔ نیشنل پریس کلب کے باہر قواعد و ضوابط کے مطابق پر امن احتجاج کی اجازت ہے۔‘
ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ ’ہائی سیکیورٹی زون کی طرف ریلی یا اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔ حفاظتی اقدامات اور خطرات کے پیش نظر نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرین کی حفاظت کے لیے اسلام آباد پولیس موجود ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ ان بزرگ کی عمر 70 سال ہے، یہ تربت سے آئے ہیں جو گوادر سے بھی 120 کلومیٹر آگے ہے، ان کے کپڑے دیکھیں یہ پسینے سے شرابور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں موجود بچیوں اور بوڑھی ماؤں کو وفاق پاکستان سے امید تھی کہ انہیں انصاف ملے گا، لیکن آپ نے ان کو مارا، انہیں ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کی، اس کے باوجود یہ پرامن لوگ اپرامن طریقے سے ادھر بیٹھے ہوئے ہیں، تو وزیراعظم نے جو کمیٹی بنائی ہوئی ہے انہیں چاہیے کہ یہاں آکر ان کی بات سنیں۔
Comments are closed on this story.