انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار، تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان چھن گیا
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کیس کا فیصلہ جاری کردیا، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ ممبر خیبرپختونخو جسٹس (ر) اکرم اللہ نے تحریر کیا، فیصلہ 11 صفحات پر مشتمل ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کروانے میں ناکام رہی اور پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات آئین کے مطابق نہیں کرائے، جس پر پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہیں ملے گا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہر علی چیئرمین پی ٹی آئی نہیں رہے۔
انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق تحریری فیصلہ جاری
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے پی ٹی ائی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا جس کے مطابق تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین، الیکشن ایکٹ اور الیکشن قواعد کے مطابق نہیں کروائے لہذا الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کردیا۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو 11 صفحات پر مشتمل ہے، تفصیلی فیصلہ الیکشن کمیشن کے ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ خان نے تحریری کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کئی فریقین نے چیلنج کیا جبکہ الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹرا پارٹی الیکشن کا سوالات اٹھائے، پولیٹیکل فنانس ونگ نے سوالات پر مشتمل سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا، الیکشن کمیشن کے حکم پر پی ٹی آئی نے 2 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرائے اور پی ٹی آئی کے نو منتخب چیئرمین نے الیکشن کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا، پولیٹیکل فنانس ونگ نے الیکشن ریکارڈ پر سنگین اعتراضات اٹھائے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 10 جون 2022 کے انٹرا پارٹی انتخابات کو بھی کالعدم قرار دیا تھا، الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت کو شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کروانے ضروری ہیں، پولیٹیکل فنانس ونگ نے پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی پر بھی سنگین اعتراضات اٹھائے، نیاز اللہ نیازی کا بطور چیف الیکشن کمشنر تقرر پی ٹی آئی کے آئین لے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی پے، عمر ایوب کو آئینی طور پر پارٹی کا سیکریٹری جنرل تعینات نہیں کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمر ایوب چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی کی تقرری کرنے کے مجاذ نہیں تھے، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر جمال اکبر انصاری ہیں، جمال اکبر انصاری کا چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے مستعفی یا ہٹائے جانے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے تمام عہدیداران بشمول چیئرمین اپنی مدت مکمل کر چکے تھے، پی ٹی آئی کے آئین کے تحت پارٹی کے عہدیداروں کی مدت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر ہیں، عمر ایوب کے بطور پارٹی سیکریٹری جنرل تقرر کا کوئی نوٹیفکیشن پیش نہیں کیا جاسکا، پی ٹی آئی آئین کے تحت پارٹی چیئرمین بھی عہدیداروں کی مدت مین اضافہ نہیں کرسکتے، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی نے کبھی چیف آرگنائزر کا تقرر نہیں کیا
تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر تقرر کرنے کا اختیار آئین کے مطابق چیف آرگنائزر کے پاس تھا، پی ٹی آئی کے آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات 13 جون 2021 کو کرائے جانے تھے، پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے آئینی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا، پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ اور پارٹی ائین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی لہذا پی ٹی آئی کو الیکشن ایکٹ سیکشن 215 کے تحت انتخابی نشان کیلئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے 18 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا اور ایک روز قبل پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 22 دسمبر تک پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنانے کی ہدایت کی تھی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے تمام درخواستوں کو خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں پارٹی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کیسے انتخابات کرائے، الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے مطابق جو پارٹی کے ممبر نہیں وہ پارٹی کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکتے، انتخابی نشان نہ دینے کے سنگین نتائج ہیں سیاسی جماعت کی رجسٹریشن پر سوال ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی نشان کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کروائے تھے، جس میں بیرسٹر گوہر بلا مقابلہ چیئرمین جبکہ عمر ایوب پارٹی کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف بانی رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا، درخواست میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے الیکشن اس کے آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ مزید 2 درخواستیں بھی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے دائر ہوئیں تھیں، جس میں الیکشن کمیشن سے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
جس کے بعد یہ کیس الیکشن کمیشن میں چلایا گیا اور پھر پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکا لیکن پھر جمعہ کو فیصلے جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے قرار دیا تھا کہ تحریک انصاف 20 دن میں جماعتی انتخابات ازسرنو کروانے میں ناکام رہی تو اس صورت میں اسے اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد فوری ردعمل میں اشارہ دیا گیا تھا کہ وہ عدالتی راستہ اختیار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلے کو چیلنج کرے گی۔
قبل ازیں الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی 20 روز میں انتخابات نہیں کرواتی تو وہ اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہو جائے گی اور ان کے امیدوار عام انتخابات میں اس نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔
یہ تحریری فیصلہ الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ خان نے تحریر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جون 2022 میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق جو رپورٹ کمیشن میں جمع کروائی گئی تھی وہ تنازعات اور شکوک و شہبات سے بھرپور تھی۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی آئین سنہ 2017 کے مطابق تمام پارٹی عہدیداران 4 سال کے لیے منتخب ہوئے جن کی مدت 13 جون 2021 کو ختم ہو گئی تھی۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 24 مئی 2021 کو انٹرا پارٹی انتخابات کی یاد دہانی کے لیے نوٹس بھیجا تھا تاہم پاکستان تحریک انصاف صاف و شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کسی صورت قبول نہیں کیے جا سکتے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف مقررہ وقت میں ایک سال کی توسیع کے باوجود شفاف انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔
خیال رہے کہ 13 جون 2021 سے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن التوا کا شکار تھے۔
مزید پڑھیں
الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی سے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق 40 سوالات، فیصلہ محفوظ
الیکشن کمیشن سرٹیفکیٹ نہ ملا تو پی ٹی آئی ٹکٹ ہولڈرز کے آزاد امیدوار بننے کا خطرہ ہے، بیرسٹر گوہر
آٹھ جون 2022 کو پی ٹی آئی نے پارٹی آئین 2019 میں ترمیم کی اور 10 جون 2022 کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرونے کے بعد منتخب ممبران کی لسٹ (سرٹیفیکیٹ) الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔
Comments are closed on this story.