امریکی ریاست کیلیفورنیا میں بے گھر خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں بے گھر خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں 60 ہزار سے زائد خواتین بے گھر ہیں۔ ان میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے علاوہ حاملہ خواتین اور مائیں بھی شامل ہیں۔
لِنڈا ریڈ سان ڈیاگو کے نیول میڈیکل سینٹر کے ریسرچ آفس میں کام کرتی تھی۔ اسے یہ کام پسند تھا مگر جب اس کی ماں کی حالت بگڑی تو دیکھ بھال کی خاطر اس نے نوکری چھوڑ دی۔ وہ ہر وقت ماں کی دیکھ بھال کرنے لگی اور یوں اس کی مالی مشکلات کا آغاز ہوا۔
2019 میں لِنڈا ریڈ کی ماں کا انتقال ہوا۔ علاج کے لیے جو قرضہ لینا پڑا تھا اس کے بھگتان کے لیے گھر بیچنا پڑا۔ یوں لِنڈا بے گھر ہوگئی۔ اسے ایک ٹرک میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی بیمار کی دیکھ بھال کے لیے انسان جو قربانی دیتا ہے اس کا احساس کرنے والے کم ہی ہیں۔ شدید بیمار افراد کی دیکھ بھال میں مصروف افراد معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ ان کی مالی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔
رواں سال کیلیفورنیا میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ 81 ہزار ہوگئی۔ بے گھر خواتین کی تعداد بھی خاصی بڑھی ہے۔ یہ نیو یارک، ٹیکساس اور فوریڈا میں بے گھر خواتین کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی تحقیق کے مطابق بے 18 سے 40 سال تک کی 40 فیصد بے گھر خواتین حاملہ ہیں۔
بے گھر خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کیلیفورنیا کے پالیسی سازوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ گزشتہ برس گورنر گیون نیوسم نے ایک بل پر دستخط کیے تھے جس کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ کیلیفورنیا نے بے گھر اور پریشان حال خواتین کی دیکھ بھال کے حوالے سے قائدانہ حٰثیت حاصل کرلی ہے۔
بہت سی خواتین کو بد دماغ رشتہ داروں اور بد مزاج پارٹنرز کے ہاتھوں تکلیف سہنا پڑتی ہے۔ ایسی خواتین بھی مالی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں اور بالآخر بے گھر ہو جاتی ہیں۔ سابق ہوٹل مینیجر مس امپسن اب 63 سال کی ہیں۔ اس عمر میں انہیں بے گھری کا عذاب سہنا پڑ رہا ہے۔
کیلیفورنیا میں بعض خواتین کو انتہائی خطرناک صورتِ حال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی خواتین مردوں کے مجرمانہ حملوں سے بچنے کے لیے اپنے بالوں میں بلیڈ بھی لگاتی ہیں تاکہ حملہ آور کی انگلیاں کٹ جائیں۔ بہت سی خواتین محض اس خوف سے اپنے بچوں کو خاندان میں چھوڑ دیتی ہیں کہ ان کی پرورش میں مشکلات پیش آئیں گی یا پھر بچوں کی حفاظت پر مامور ادارے انہیں تحویل میں لے لیں گے۔
Comments are closed on this story.