خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب کی حلقہ بندیوں کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ مناسب حکم نامہ جاری کریں گے جو مستقبل میں بھی کام آئے گا، ہمارے پاس وقت تو نہیں مگر میں ایسا فیصلہ دوں گا جو مستقبل میں کام آئے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے وکلاء سید قمر سبزواری، قاسم نواز عباسی و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ضیغم انیس اور ثمن مامون عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
خیال رہے کہ پنجاب کے چینیوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقہ 93، 94 کی حلقہ بندیاں چیلنج کی گئی ہیں، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قومی اسمبلی کے حلقہ 106، 107 کی حلقہ بندیاں چیلنج کی گئی ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ کے این اے 8 کی حلقہ بندی بھی چیلنج کی گئی ہے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے صوبائی اسمبلی کے 121 اور 124 کی حلقہ بندی چیلنج کی گئی ہے۔
سندھ کے ضلع سانگھڑ کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 41، 42 کی حلقہ بندیاں چیلنج کی گئی ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس ارباب طاہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد ہمارے ہاتھ باندھے گئے ہیں، ہمارے پاس وقت تو نہیں مگر میں ایسا فیصلہ دوں گا جو مستقبل میں کام آئے گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے ووٹرز کی تعداد کتنی رکھی ہے؟ کیا حلقہ بندیوں کی شیڈول کا اعلان آپ سیکشن 57 کے تحت کرتے ہیں؟
جس پر درخواست گزار کے وکیل قمر سبزواری نے کہا کہ یہ پہلے مان لیتے ہیں غلطی ہوئی ہیں اور پھر درخواستوں کو خارج کرتے ہیں، حلقہ این اے 8 باجوڑ کی کل آبادی 13 لاکھ ہے اور حلقہ بھی ایک دیا گیا، ہمارے پڑوس کے قومی اسمبلی کا حلقہ ساڑھے 5 لاکھ کی آبادی پر رکھا گیا، ماضی میں ہمارے ضلع میں دو حلقے تھے اور اب ایک حلقہ بنایا گیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کا تعین ہم نے ضلع کی حد تک کر رکھا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 35 کوہاٹ کی حلقہ بندی ریمانڈ بیک کی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت کیا آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ آبادی بڑھنے پر حلقہ ضم کریں؟ بتائیں کہ الیکشن ایکٹ میں کہاں لکھا ہے آبادی زیادہ ہو تو دوسرے حلقے میں منتقل کیا جائے؟
جسٹس ارباب طاہر نے کہا کہ ویسے تو ہردس سال بعد مردم شماری ہونی چاہیئے مگریہاں ایسا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ آبادی بڑھنے پر نشتیں کم کریں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود ہی الیکشن ایکٹ کے سیکشن 20 کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد ہمارے ہاتھ بندھ گئے ہیں، ہمارے پاس وقت تو نہیں مگر میں ایسا فیصلہ دوں گا جو مستقبل میں کام آئے گا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے ووٹرز کی تعداد کتنی رکھی ہے؟۔
جس پرالیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ کے لیے 9 لاکھ کی تعداد ہوتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر 9 لاکھ کی آبادی ہے تو یہاں 13 لاکھ میں کیسے ایک حلقے کو رکھا گیا؟ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں یہی کچھ کیا ہے۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب کے قومی و صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
Comments are closed on this story.