دسمبر 1971 میں پاکستان کے بنگالی وزیراعظم
بہت کم لوگوں کو یاد رہتا ہے کہ دسمبر 1971 میں جب مشرقی پاکستان کی بنگلہ بولنے والی آبادی علیحدگی کیلئے لڑ رہی تھی پاکستان کے وزیراعظم ایک بنگالی نورالامین تھے۔
نور الامین اس وقت حکومتی ڈھانچے میں شامل واحد بنگالی نہیں تھے۔ غلام اعظم، محمودعلی، راجا تری دیورائے، حمید الحق چوہدری بھی وہ بنگالی تھے جو پاکستان کا نظم و نسق سنبھالنے والوں کے ساتھ تھے۔
بنگلہ دیش بنا تو یہ تمام لوگ بنگلہ دیشیوں کی نظرمیں غدارقرار پائے لیکن ان میں سے کم ازکم ایک نے واپس اپنی سرزمین پر جا کرمرنا گوارا کیا۔
نورالامین پاکستان کے واحد نائب صدر بھی رہے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں 7 دسمبر سے 20 دسمبر 1971 تک یعنی 13 دن کے لیے ملک کے آٹھویں وزیراعظم کی حیثیت سے بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے یہ ملک کی تاریخ کا کم ترین دورانیہ ہے۔
نور الامین 15 جولائی 1893 کو مشرقی بنگال کے ضلع میمن سنگھ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سیاسی کریئر کا آغاز 1948 میں مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کیا۔ بنگالی ہونے کے باوجود وہ 1952 میں بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے مخالف تھے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران بھی متحدہ پاکستان کے لیے فعال کردار ادا کیا۔
نورالامین قانون دان تھے۔ انہوں نے 1924 میں قانون دان کی حیثیت سے کریئر شروع کیا۔ قیامِ پاکستان سے قبل نورالامین نے بلدیاتی اداروں میں مختلف حیثیتوں میں خدمات انجام دیں۔ وہ 1944 میمن سنگھ میں مسلم لیگ کے ضلعی صدر بھی رہے۔ انہیں بنگال پراونشل مسلم لیگ کا نائب صدر بھی منتخب کیا گیا۔
1945 میں نورالامین نے غیر منقسم ہندوستان کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب رہے۔ اگلے ہی برس انہیں بنگال قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر جنرل منتخب ہوئے۔ نورالامین مشرقی منگال میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بااعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔ 1946 میں قائد اعظم نے مشرقی بنگال کا دورہ کیا نورالامین نے ان کی مدد کی۔ قیامِ پاکستان تک نورالامین ایک بڑے سیاسی رہنما بن چکے تھے جن پر عوم کو اعتبار تھا۔
قائد اعظم کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنائے گئے تو انہوں نے نورالامین کو مشرقی بنگال کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا۔ بحیثیت وزیراعلیٰ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کے روابط کشیدہ رہے۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد نورالامین کو سپلائی کا وزیر بنایا گیا۔ 1947 اور 1954 میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بحیثیت وزیر اعلیٰ نورالامین کو مشرقی بنگال میں آزادانہ کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ معاملات وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی قیادت میں کام کرنے والی مرکزی حکومت کے ہاتھ میں تھے۔ نورالامین کمیونسٹ پارٹی کے اثرات گھٹانے میں بھی ناکام رہے۔
بنگلہ زبان کو سرکاری زبان بنانے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران مسلم لیگ مشرقی پاکستان میں مقبولیت سے محروم ہوگئی۔ نورالامین نے کمیونسٹ پارٹی کو لسانی تحریک کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔ اکتوبر 1951 سے مشرقی بنگال میں نورالامین کی مقبولیت گھٹنے لگی تھی۔ نورالامین نے منحرفین کو پارٹی سے نکال دیا تاہم اس سے پارٹی کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی۔
1952 کے اوائل میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی طرف سے اردو ہی کو سرکاری زبان کے طور پر برقرار رکھنے کے اعلان پر طلبہ بپھر گئے۔ احتجاجی طلبہ پر پولیس نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں چار طلبہ جاں بحق ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں مشرقی بنگال میں مسلم لیگ کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے، جو بنگالی تھے، 1954 میں مشرقی بنگال کا دورہ کیا تاہم وہ مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ممکن نہ بناسکے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سرکردہ سیاست دانوں نے نورلامین کے استعفے اور جلد نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔
نورالامین نے 1965 میں مشرقی پاکستان سے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا اور پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثریت کے حامل ہوئے۔ انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد نورالامین اپوزیشن لیڈر بنے اور یہ منصب 1969 تک برقرار رہا جب جنرل یحیٰ خان نے مارشل لا نافذ کیا۔ 1970 کے انتخابات میں نورالامین مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے دو غیر مسلم لیگی امیدواروں میں سے تھے۔ یحٰی خان کے مستعفی ہونے پر نورالامین کی وزارتِ عظمٰی ختم ہوگئی تاہم انہیں نائب صدر بنادیا گیا۔ اس منصب پر وہ 23 اپریل 1972 سے 14 اگست 1973 تک فائز رہے۔
نورالامین نے قیام پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہمیشہ پاکستان سے انتہائی درجے کی محبت کا اظہار کیا۔ وہ پہلے بنگلہ کو سرکاری زبان بنانے کی تحریک اور اس کے بعد مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کی تحریک کے شدید مخالف رہے۔ وہ متحدہ پاکستان کے لیے دل و جان سے کام کرنے والے بنگالی سیاست دانوں میں نمایاں ترین تھے۔ بنگلہ دیش کے قیام پر نورالامین نے ، محمود علی ، چکما قبیلے کے سردار راجہ تری دیو رائے اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غلام اعظم کے ساتھ، پاکستان کو اپنے مستقل مستقر کے طور پر منتخب کیا۔
نورالامین کا انتقال 2 اکتوبر 1974 کو راولپنڈی میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ انہیں کراچی میں مزار قائد کے احاطے میں لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔ راجہ تری دیورائے نے ارجنٹائن میں پاکستان کے سفیرکی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ان کا اور محمود علی کا انتقال بھی پاکستان میں ہوا۔
Comments are closed on this story.