Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ نے فیض حمید سمیت 2 فوجی افسران، 2 عدالتی شخصیات کو نوٹسز جاری کردیے

فیض حمید سمیت 4 افراد پر سنگین الزامات ہیں، چیف جسٹس
اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2023 03:58pm
فوٹو:اسکرین گریپ
فوٹو:اسکرین گریپ

سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جج شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر سماعت میں سابق آرمی افسر فیض حمید کو نوٹس جاری کردیا، اور ریمارکس دیئے کہ اب آپ ہم سے انصاف لے کر جائیں گے چاہے آپ کو پسند آئے یا نہ آئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جج شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے سابق آرمی افسر فیض حمید کو نوٹس جاری کردیا ہے، اور دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اب آپ ہم سے انصاف لے کر جائیں گے چاہے آپ کو پسند آئے یا نہ آئے۔

شوکت صدیقی کی برطرفی سے متعلق سماعت براہ راست دکھائی گئی، اور سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ، یوٹیوب پر براہ راست نشر کی گئی۔

کیس کی سماعت

سپریم کورٹ میں معزول جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ کا حصہ ہیں۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے معزول جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ جن الزامات پر آپ کوعہدے سے ہٹایا گیا کیا وہ درست ہیں، آپ کی درخواست آئین کے آرٹیکل 184تھری کے تحت ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی درخواست پڑھیں، اگر الزمات درست ہیں تو جن لوگوں کو آپ پارٹی بنانا چاہتے ہیں ان کو کیا ملے گا، آپ کا الزام ہے کہ وہ کسی اور کیلئے سہولت کار بن رہے تھے، ایک شخص کو نقصان پہنچایا گیا اور دوسرے کو فائدہ، یہ آپ کی تقریر ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جس کیلئے وہ سہولت کار بن رہے تھے وہ کون تھا، آپ آئین کے آرٹیکل 184 تھری میں داخل ہوگئے ہیں، اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو آپ نے ملکی آئین کیخلاف کارروائی شروع کردی، آپ نے لوگوں کی پیٹھ پیچھے الزامات لگائے، اور اگر وہ لوگ آئین کی پاسداری نہیں کررہے تھے تو اور لوگ بھی جال میں پھنس جائیں گے، آپ کہہ رہے ہیں کہ متواتر وقت پر الیکشن سے بھارت آگے نکل گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی کو نااہل رکھا جائے تو کسی کو فائدہ بھی تو ہوگا، آرٹیکل 184 تھری میں یہ کیس آپ ہمارے پاس لائے ہیں، یہ بہت سنجیدہ بات ہے لیکن آپ اس کو سنجیدہ نہیں لے رہے، آپ نے بھی کئی بار الیکشن میں حصہ لیا، ہم اپنے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی بات کرلیتے ہیں، ایک شخص کو باہر اسی لیے رکھا جاتا ہے تاکہ پسندیدہ امیدوارجیت جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نےآپ کو نہیں بلایا، آپ خود یہاں آئے ہیں، اب مرضی ہماری چلے گی، ایسا نہیں ہوسکتا آپ فرد واحد کا کیس لے آئیں اور باقی کسی کا نہ دیکھیں، جب ہمارے پاس آئین ہے تو ہم اس کیمطابق چلیں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمیں کہا جائے یہ کردیں یاوہ کردیں، اگر آپ نے یہ کیا تو آئین، عدلیہ اور جمہوریت پر بہت بڑا حملہ ہوگا، اس کا ہم پھر نوٹس لیں گے، اور حتمی جگہ پر پہنچائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرا سوال ہے فوج آزاد ادارہ ہے یا حکومت کے ماتحت ہے، حکومت کا سربراہ کون ہوتا ہے۔ جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر کے اختیارات بہت کم ہیں، وہ خود وزیراعظم کی ایڈوائس پر چلتے ہیں، وفاقی حکومت اور کابینہ ایک شخص نہیں ہے، جب ہمارے پاس آئین ہے تو ہم اس کیمطابق چلیں گے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ آئین کے تحت فوج کا ارادہ حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یا تو آپ یہ کہہ دیں کہ آپ کو ایک شخص سے ہمدردی ہے، آپ ہمیں نہ بتائیں کہ ہم کیا کریں گے، آپ ہماری مدد اور معاونت کریں، آگے کیا کرنا ہے وہ ہم کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کا نام لکھا جائے تو اس کو نوٹس ہونا لازمی ہے، بلاوجہ نوٹس نہیں ہونا چاہیے، اب جب سوالات اٹھ رہے ہیں تو آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آرہا آپ کا مؤقف کیا ہے، آپ ہمیں یہ حکم نہیں دے سکتے کہ آپ ایسے چلیں یا ویسے، آپ اپنا مسئلہ بتائیں آپ چاہتے کیا ہیں، جمہوریت چاہتے ہیں، آئین پرعمل چاہتے ہیں، بار ایسوسی ایشن کیوں ہمارے سامنے آئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلاوجہ لوگوں کوتنگ نہیں کرناچاہتے کہ نوٹسز آئیں، یہ نہیں ہوسکتا آپ دنیا بھر کے نام لکھ دیں اور ہم نوٹسز کر دیں، آپ نے جو سنگین الزامات لگا دیئے ہیں، ان کے سنگین نتائج بھی ہوسکتے ہیں، ہم ایک مقصد کےلیے استعمال نہیں ہوں گے، ہم نہ ایک پارٹی سے استعمال ہوں گے نہ دوسری سے، ہم وہی کام کریں گے جس کی آپ کو شکایت ہے، ایسے تو پھر کل آپ ہم پر الزام لگائیں گے کہ یہ تو استعمال ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ ہمیں مناسب جواب نہیں دیں گے تو پھر کچھ شک پیدا ہوجائے گا، آپ شخصیات پر چل رہے ہیں یا اصولوں پر چلنا چاہتے ہیں، ایسے تو مان لیتے ہیں کہ شوکت صدیقی کی تمام باتیں مفروضے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ غریب عوام ہمیں بھی تنخواہ دیتے ہیں، جب آپ کوئی بات کریں تواس کے نتائج سوچ سمجھ کر آیا کریں، ہم ترتیب سے چلیں گے، ہم سسٹم میں شفافیت لانے کی کوشش کررہےہیں، سسٹم میں کچھ خامیاں ہیں، ان کو آہستہ آہستہ دور کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک ریفرنس لگتا ہے، تو دوسرا دوسرے دن لگ جاتا ہے، جو ریفرنس 10سال سے نہیں لگا تھا وہ بھی ہم نے لگایا، ہم پرانے کیسسز لگا رہے ہیں، یہ باتیں نہیں ہوں گی کہ آپ وہی کام کررہے ہیں جودوسرے کرچکے، اس کیس میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں، آگے بڑھیں گے توپورے راستے تک جائیں گے، ایسا نہیں ہوگا کہ آپ کہیں ہمارا کام ہوگیا اب ہم گھرجارہے ہیں، ایسے تو پھر آپ ہمیں استعمال کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس اپنی ذات کیلئے کر رہے ہیں یا بار ایسوسی ایشن کیلئے؟ آپ ایک شخص کی بات مانیں یا نہ مانیں، آپ نے کہا کچھ فوجی افسران، سابق چیف جسٹس مل کر سازش کر رہے تھے، اس سازش کی کوئی ذہن میں بھی بات ہوتی ناں، جہاز کا ٹکٹ کسی جگہ کیلئے کٹواتے ہیں نہ کہ اس لیے کہ کسی بھی جگہ چلا جاؤں گا، آپ کوئی آئینی سوال نہیں کررہے، یہ آئینی کورٹ ہے آئین کی بات کریں، اور آئین کہتا ہے کہ کسی جج کو ہٹایا نہیں جاسکتا۔

وکیل حامد خان نے اعتراض اٹھایا معاملے کی انکوائری کیوں نہیں کی گئی۔ ہم کہتے ہیں کہ انکوائری میں سب کوموقع ملنا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جو کیا ٹھیک کیا یا غلط، ہم اس پر بات نہیں کریں گے، ہم کسی کی پیٹھ پچھے الزامات نہیں سنیں گے، کل بھی آپ سے پوچھا تھا یا تو آپ آئینی بات کریں یا قانونی، ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں آپ کا مسئلہ ہے کیا۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا، اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم ناقص تفتیش نہیں کرنا چاہتے، ہم مکمل تفتیش کرنا چاہتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں تفتیش میں کس کو بلائیں، ہمیں تاریخ نہیں بھولنی چاہیے، پتہ ہونا چاہیے ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ آپ کہتے ہیں لوگ یہاں آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، ماضی میں جو ہوتا رہا وہ سب ٹھیک کرنا ہے، آلے کے طور پر استعمال کون کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، ہم نے آئینی اداروں کو حکم دیا انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کریں، ملک میں کب اتنی جلدی کیس کا فیصلہ ہوا ہے، الیکشن کی تاریخ سے متعلق کیس کرنے سیاسی جماعت آئی تو 12 روز میں فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کہیں آپ چیزوں کوبالکل بڑھادیتے ہیں، کہیں آگے بھی نہیں بڑھنا چاہتے، ابھی تک کوئی کڑی قمرباجوہ کے ساتھ نہیں جڑرہی، ہم بلاوجہ لوگوں کو نوٹسز نہیں دیتے، کل کو آپ ہمارا مذاق نہ بنوائیے گا۔

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ابھی تک قمر باجوہ کی کوئی ڈائریکٹ بات نہیں کی، ابھی تک جو آپ باتیں کررہے ہیں، اس میں دوسروں کے نام آرہے ہیں، یہ آرٹیکل 184 ہے، لوگوں کو نقصان بھی ہو جاتا ہے، اب آپ ہم سے انصاف لے کر جائیں گے چاہے آپ کو پسند آئے یا نہ آئے، کس سیاسی جماعت کو نکالنے کیلئے یہ سب ہوا۔

وکیل صلاح الدین نے مؤقف پیش کیا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نوازشریف کا نکالا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا، کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کیلئے یہ سب ہوا۔

وکیل صلاح الدین نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تاکہ حقیقت سامنے آئیں۔

سپریم کورٹ نے فیض حمید کو نوٹس جاری کردیا، جب کہ بریگیڈیئرریٹائرڈ عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کاسی، سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی نوٹس جاری کردیئے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیض حمید سمیت 4 افراد پر سنگین الزامات ہیں، ان کو نوٹس کیے جائیں، ان افراد پر سنگین الزامات ہیں، ہمارا خیال ہے ان کو بلا کر سناجائے، انہیں سنے بغیر کوئی بھی فیصلہ جاری کرنا نامناسب ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چاروں افراد کو ریکارڈ کی فائل فراہم کی جائے، شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا ہے، قمر باجوہ نے شوکت عزیز سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔

شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا معاملہ

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو 11 اکتوبر 2018 کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اُس وقت کے سینیئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے بیان پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا تھا جس میں ریاستی اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

شوکت عزیز صدیقی نے عہدے سے ہٹانے کے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائر کر رکھی تھی۔

گزشتہ روز کی سماعت کا احوال

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست پرگزشتہ سماعت کب ہوئی تھی۔ جس پر وکیل حامد خان نے بتایا کہ آخری سماعت 13جون 2022 کو ہوئی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس طارق، جسٹس اعجازالاحسن نے بینچ میں شمولیت سے انکار کیا، میں نے کسی کو بینچ سے نہیں ہٹایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش ہوتی ہے اتفاق رائے یا جمہوری طریقے سے کمیٹی میں چلیں، موبائل اٹھا کر صحافی بننے والوں کو سوچنا چاہئے پریکٹس اینڈ پروسیجر پر فیصلہ آچکا، جمہوریت کی جانب جا رہے ہیں عدالت میں بھی جمہوریت آرہی ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ جمہوریت اس وقت مشکل میں ہے۔

مزید پڑھیں: سابق جج شوکت عزیز کی کیس کی جلد سماعت کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست

شوکت عزیزکی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض

وفاقی حکومت کی جانب سے بیرسٹرصلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت درخواست کی مخالفت کرے گی۔

وفاقی حکومت نے شوکت عزیز کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کردیا۔

وکیل حامد خان نے جسٹس شوکت عزیز کی برطرفی کاباعث بننے والی تقریر پڑھی، اور کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی ایک ریفرنس دائر ہوا تھا، شوکت عزیز پر ایک ریفرنس سرکاری گھر کی تزئین وآرائش کا بھی تھا، اور ان کے خلاف درخواست گزار جمشید دستی، سی ڈی اے افسر اور وکیل کلثوم خالق تھے، جس ریفرنس پر شوکت عزیز کی برطرفی ہوئی وہ سپریم جوڈیشل کونسل نےسوموٹو لیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کوتقریرکا کیسے معلوم ہوا۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کو نوٹ لکھا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا شوکت عزیزصدیقی کی تقریر تحریری تھی۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیزصدیقی نے فی البدیہہ تقریر کی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟

جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ جنرل فیض حمید ایک برگیڈیئر کے ساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کررہے تھے اس لئے فریق نہیں بنایا۔ فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی پر الزام نہ لگائیں، جن پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق بنائیں، حامد خان صاحب ادارے برے نہیں ہوتے لوگ برے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنے کا ایک فیشن چل گیا ہے، اداروں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں،آپ کسی کو بچانا چاہتے ہیں تو بتائیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ میں چاہتاہوں کہ ان کو بلایا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو بلانا پڑے گا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا، درخواست دینا ہوگی۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے اپنی درخواست میں ان کو بلانے کا ذکر کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے غلط کیا ہے آپ کو وزارت دفاع کو فریق بنانا چاہئے تھا، ملک کی تباہی اس ہی وجہ سے ہوتی ہےشخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں، اداروں کو لوگ چلاتے ہیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے کا جوڈیشل کونسل نے موقع نہیں دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب تو آپ کے پاس موقع ہے اب کیوں نہیں فریق بنا رہے، کسی کی پیٹھ پیچھےالزام نہیں لگانے دیں گے، اس اعتبار سے تو سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ درست ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے پر اعتراض نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فریق بنا کر ہم پر احسان نہ کریں، اداروں پرالزام نہیں لگانے دیں گے، ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کسی پر الزام لگے تو سب کے سامنے ہونا چاہئے، یقین ہے آپ کے موکل نے کبھی کسی کو پارٹی بنائے بغیر فیصلہ نہیں کیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کا الزام ایک شخص پر ہے یا ادارے پر؟

جس پر حامد خان نے کہا کہ عدالت میں جمع کرائی گئی متفرق درخواست میں فیض حمید اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر کا گھر آنے کا ذکر کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ کا الزام ایک فرد پر ہے تو اسے فریق تو بنائیں، ادارے نہیں بولتے، ادارے میں بیٹھی شخصیات ہی بولتی ہیں، میرا اصول ہے کہ جس پرالزام لگاؤ اس کو سنو، ممکن ہے وہ الزامات تسلیم کر لے، یہاں صحافی بیٹھے ہیں اور کل اس شخص کا نام اخبارات کی زینت بن جائے گا، ہم کسی کو کچھ لکھنے سے تو نہیں روک سکتے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں اسے فریق بنانا چاہتے ہیں یا نہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں کیا اس نے کسی فورم پر آپ کو جواب دیا؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل نے اس شخص کو نوٹس کیا تھا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں انہیں سنے بغیر نکالا گیا، آپ بھی فیض حمید وغیرہ کو بغیر موقف پیش کئے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں، شوکت عزیزصدیقی نے بطور جج کبھی کسی کو سنے بغیر اس کے خلاف فیصلہ نہیں کیا ہوگا، ممکن ہے جن پر الزامات لگ رہے وہ شوکت عزیز صدیقی کے الزام کی تصدیق کر دیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی لوگ بعد میں تسلیم کر لیتے ہیں کہ دباؤ میں کام کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی جج کرپٹ ہو تو الزام ضلعی عدلیہ پر نہیں اس جج کے خلاف لگے گا۔

حامد خان اور بار کونسلز نے فیض حمید کو فریق بنانے کیلئے درخواست دینے کی استدعا کر دی۔

چیف جسٹس نے درخواست پر کہا کہ سردیوں کی چھٹیاں آرہی ہیں، آئندہ سماعت پر صرف فریقین کو نوٹس ہی جاری ہوں گے، حامد خان صاحب آپ ہچکچا رہے ہیں اس لئے سماعت جنوری میں رکھ لیتے ہیں، کس کو فریق بنانا ہے یہ ہمارا کام نہیں، لیکن جو فریق نہ ہو اس پر الزام نہیں لگانے دیں گے، فریق نہیں بنانا تو شخصیات کے نام نکال کر نئی درخواست دائر کریں، اگر فریق بنانے کی درخواست آج دائر کرتے ہیں تو کل نوٹس جاری کر دیں گے۔

جس کے بعد حامد خان نے آج ہی فیض حمید اور انور کانسی کو فریق بنانے کی درخواست دائر کرنے کی یقین دہانی کرا دی اور کہا کہ جن پر الزام لگایا ہے انہیں فریق بنانے کی درخواست کل تک دائر کر دیں گے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 10 تک ملتوی کردی۔ اور چیف جسٹس نے دن کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا۔

بعد ازاں، شوکت عزیز صدیقی نے فریقین کے نام شامل کر کے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کو فریق بنانے کی استدعا کی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ بریگیڈئیر (ر) عرفان رامے اور بریگیڈئیر (ر) فیصل مروت کو بھی فریق بنایا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی فریق بنایا جائے۔

Supreme Court