Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

جسٹس مظاہرنقوی کو شوکاز نوٹس کا جواب یکم جنوری تک جمع کروانے کی ہدایت

جوڈیشل کونسل کے پانچوں ارکان نے اوپن سماعت کی درخواست کو منظور کیا
اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2023 06:22pm
فوٹو۔۔۔۔ سپریم کورٹ
فوٹو۔۔۔۔ سپریم کورٹ

جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کی اوپن سماعت کی درخواست منظور کرلی ہے، اس کے ساتھ ہی کونسل نے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کیلئے جسٹس مظاہر نقوی کو وقت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرصدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس جاری ہے، جس میں جسٹس سردارطارق، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی موجود ہیں۔

اجلاس میں جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف شکایات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اور جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ حارث نے جوڈیشل کونسل سے کارروائی ملتوی کرنے کی استدعا کردی ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں کل آئینی درخواستیں سماعت کیلئے مقررہیں، مناسب ہوگا سپریم کورٹ کے فیصلے تک سماعت نہ کی جائے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہرنقوی کی اوپن سماعت کی درخواست منظور کرلی، سپریم جوڈیشل کونسل نے اوپن سماعت کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا۔

جوڈیشل کونسل کے پانچوں ارکان نے اوپن سماعت کی درخواست کو منظور کیا۔

اوپن سماعت میں کیا ہوا؟

اس کے بعد اوپن سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جسٹس مظقہر علی اکبر نقوی کے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ آپ نے کہا اوپن کارروائی ہو ہم نے کر دی، اب یہ نا بتائیں کہ آپ نے متعدد درخواستیں دائر کیں،یہ بتائیں کیا چاہیے ہم ابھی دیتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بتائیں کیا دستاویز چاہیے، آپ کے خطوط ریکارڈ کا حصہ نہیں تو کیسے دیکھیں؟

وکیل خواجھہ حارث نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی نوٹنگ اور جسٹس سردار طارق کی رائے نہیں دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے سیکرٹری کونسل کو ریکارڈ فائل خواجہ حارث کو دینے کی ہدایت کی اور خواجہ حارث نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا لکھا نوٹ پڑھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اس نوٹ میں تو صرف شکایت پر رائے دینے کا کہا گیا ہے، یہ تو میں وہ پڑھ رہا ہوں جو مجھے پڑھایا جا رہا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی بات نا کریں کہ پڑھایا جا رہا ہے، دیکھیں ہم شفافیت پر یقین رکھتے ہیں، آپ کو سب اوپن چاہیے تھا ہم نے کر دیا، اب سب اوپنلی پڑھیں، یہ لفظ ٹھیک نہیں کہ ہم آپ کو پڑھا رہے ہیں۔

چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ وہ اپنی شکایت پر رہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے ریکارڈ کی کاپی چاہیے تاکہ شوکاز کا جواب دے سکوں، زبانی تو پڑھ کر سب بھول جاتا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ کریں گے کہ آپ کو ریکارڈ کاپی دینی ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا ہمارے پاس ریکارڈ نہیں، آپ کو ہم نے کاغذ دکھا دیے، آپ ہماری بات ذرا غور سے سن لیں یہ نہ ہو آپ کو پھر ہم نہ سنیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا خط ہم تک پہنچنے سے پہلے سوشل میڈیا پر آجاتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر ہر ایک چیز سوشل میڈیا پر چلے گی، آپ نے ہمارے سیکرٹری پر الزام لگایا یہ وہاں سے خط لیک ہوتا ہے، سیکرٹری نے پوچھنے پر بتایا وہ اس میڈیا کے نمائندے کو جانتی تک نہیں۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کونسل کی سیکرٹری والے الزام پر معذرت کر چکے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم محتاط ہوگئے کہ باقی ریکارڈ بھی دیا تو سوشل میڈیا پر نہ آجائے، ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کو دلائل سےروک دیں یا ایک اور نوٹس جاری کردیں، سپریم جوڈیشل کونسل مس کنڈکٹ کی انکوائری کرتا ہے، وکالت کی گنجائش نہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پہلی سماعت پر بھی ہمیں بلایا گیا، معلوم نہیں الزامات کیا ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے جسٹس نقوی کو بلایا نہیں تھا صرف بیٹھنے کی اجازت دی تھی، نہیں چاہتا تھا کہ جسٹس نقوی کی پیٹھ پیچھے کوئی کارروائی ہو، میرے خلاف ریفرنس آیا تو کونسل نے مجھے ایک بار بھی نہیں بلایا، جو میرے ساتھ ہوا نہیں چاہتا کسی اور کے ساتھ بھی ہو، میں نے تو سپریم جوڈیشل کونسل کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ روز کہتے ہیں آپ کی عزت ہماری عزت ہے، مجھے صرف ریکارڈ دے دیں تا کہ جواب دوں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے میڈیا کو ریکارڈ پڑھوانا ہے تو پڑھا دیجیے گا، شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دینا تو بتا دیں، یہ اجازت نہیں دوں گا آپ جو مرضی کہتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے آپ کو دو خطوط لکھے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو خط آپ کو خط لگا رکھی ہے؟ سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں، صرف اس کا ایک ممبر ہوں، کیا ہر ایک خط پر ایک چیف جسٹس لاہور ایک کوئٹہ سے آئے؟ لاہور اور کوئٹہ سے سفر کر کے آنے کا ٹیکس عوام دے رہی ہے، جو درخواست کرنی ہے سپریم جوڈیشل کونسل سے کریں مجھ سے نہیں۔

جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں اگر یہ تاثر گیا کہ میں آپ کو انفرادی طور پر کہہ رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ادھر ادھر کی باتیں کرنی ہیں تو کریں ہم کارروائی آگے بڑھاتے ہیں۔

خواجہ حارث نے استدعا کی کہ شوکاز کا جواب دینے کے لیے کچھ دن دے دیں، میں شوکاز نوٹس کا جواب دینا چاہتا ہوں، کل آئینی درخواستیں مقرر ہیں جو بھی فیصلہ ہو گا پھر جواب دے دیں گے۔

جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کیلئے جسٹس مظاہر نقوی کو وقت دینے کا فیصلہ کرلیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وقت دیں گے لیکن یہ بار بار نہیں ہوگا۔

اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں وقفہ چیف جسٹس کی جانب سے یہ کہتے ہوئے کردیا گیا کہ ہم مشاورت کرکے واپس آتے ہیں۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی توچیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے سربراہ حسن رضا پاشا سے سوال کیا کہ آپ کے گواہان کون ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ گواہان میں آڈیو لیکس والے افراد ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو لیکس میں دیکھنا ہو گا کہ آڈیوز درست ہیں یا نہیں، آج کل تو کوئی بھی آڈیوز توڑ مروڑ کر بنا دیتا ہے، صرف گواہان بتائیں۔

حسن رضا پاشا نے گواہان میں آڈیو لیکس، پراپرٹی دستاویزات اور ہاوسنگ سوسائٹیز کے مالکان کے نام دیے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی سے یکم جنوری تک جواب مانگ لیا اور جواب کے ہمراہ گواہان کی فہرست بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔

خواجہ حارث کا اعتراض کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل پراسیکیوٹر نہیں ہوسکتی، گواہ کونسل نے نہیں اٹارنی جنرل نے بطور پراسیکیوٹر بلانے ہیں، شکایت کنندگان کا سپریم جوڈیشل کونسل رولز میں کوئی تصور نہیں، کونسل کو صرف معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔

کونسل نے شکایت کنندگان کے گواہان کی فہرست اٹارنی جنرل کو دیدی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ گواہان کا شاید اضافہ ہو۔

جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہرنقوی کو شوکاز نوٹس کا جواب یکم جنوری تک جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کارروائی 11 جنوری تک ملتوی۔

حکم نامے میں لکھوایا گیا کہ اٹارنی جنرل کے گواہان کی فہرست جمع کروانے پرنوٹسزجاری کردیے جائیں۔

supreme judicial council

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)

MUZAHIR NAQVI