Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت، عدالت میں کیا ہوا

5 رکنی بینچ کا فیصلہ معطل، سپریم کورٹ بینچ نے پانچ ایک سے حکم نامہ جاری کردیا، جسٹس طارق کا بینچ چھوڑ نے سے انکار
اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2023 10:30pm
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

سپریم کورٹ کے 5 رُکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کا 23 اکتوبرکا فیصلہ مشروط طور پر معطل کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نےقرار دیا کہ 9 مٸی کے واقعات میں زیر حراست ملزمان کا ٹراٸل جاری رہے گا۔

پانچ ایک کی اکثریت سے جاری کیے جانے والے اس فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ فوجی عدالتیں ملزمان کاٹرائل کرسکتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے احکامات سے مشروط ہوگا۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کا یہ فیصلہ 6رکنی بنچ کے 5 ججز نے معطل کیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت بدھ کو کافی ڈرامائی ثابت ہوئی۔ جسٹس سردار طارق نے اعتراضات پر بینچ سے الگ ہونے سے انکار کر دیا، اور ریمارکس دیئے کہ جج کی مرضی ہے کہ بینچ کا حصہ رہے یا سننے سے معذرت کرے۔

عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ دیر بعد جاری کردیا گیا۔

آج کی سماعت کا احوال

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس سردار طارق مسعود کی زیرصدارت 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بنچ کا حصہ تھے۔

جسٹس سردار طارق کا بینچ سے الگ ہونے سے انکار

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل لطیف کھوسہ نے حکم امتناع کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جن ججوں نے خصوصی عدالتوں کا فیصلہ دیا وہ بھی اسی عدالت کے جج ہیں، ان کا ٹرائل کالعدم قرار دینے والا تفصیلی فیصلہ آیا نہیں اور ٹرائل دوبارہ کیسے چلے گا۔

جسٹس سردار طارق نے اعتراضات پر بینچ سے الگ ہونے سے انکار کر دیا، اور ریمارکس دیئے کہ وکلا جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ پڑھ لیں، جج کی مرضی ہے کہ بینچ کاحصہ رہے یا سننے سے معذرت کرے۔

وکیل اعتزاز احسن نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت پہلے اعتراضات کو سنے۔

جسٹس طارق نے استفسار کیا کہ بینچ پر اعتراض کس نے کیا۔ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے درخواست دائر کر رکھی ہے۔

جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ کیس سننے سے انکار کا فیصلہ جج کی صوابدید ہے، میں خود کو بینچ سے الگ نہیں کرتا، معذرت۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے الگ ہونے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا اور کہا کہ کیا آپ کو نوٹس ہوا ہے، جب فریقین کو نوٹس ہوگا تب آپ کا اعتراض دیکھیں گے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں اس لئے بول رہا ہوں۔ جس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم کھڑے ہو کر کیس سنیں؟ بیٹھ کر ہی مقدمہ سنا جاتا ہے۔

وکیل خواجہ حارث پر اعتراض

دوران وکیل فیصل صدیقی نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت نجی وکلا کی خدمات حاصل نہیں کرسکتی۔

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نجی وکلا کی خدمات کیلئے قانونی تقاضے پورے کئے ہیں، مناسب ہوگا پہلے درخواست گزاروں کو سن لیا جائے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت فیصلہ ہمیں سنے بغیرمعطل نہیں کرسکتی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فریقین کے وکلاء کا اعتراض بے بنیاد ہے، پہلے میرٹس پر کیس سنیں، نوٹس کے بعد اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نوٹس ہونے کے بعد اعتراض اٹھانے پر کیس متاثر ہوگا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جب نوٹس نہیں تو اعتراض کیسے سنا جا سکتا ہے؟ جنہوں نے اعتراض کیا وہ خود توعدالت میں نہیں ہیں، بہتر ہے پہلے بنچ اپیلوں پر سماعت کا آغاز کرے۔

وزارت دفاع کے وکیل حواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقیں آئین کی کس شق کے تحت غیر آئینی ہیں، اس بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ شفاف ٹرائل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ خصوصی عدالتوں میں فئیر ٹرائل کو یقینی کیسے بنائیں گے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سویلینز میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ بھی آتے ہیں، سویلینز سے متعلق دفعات کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ کیا تفصیلی فیصلہ دیکھے بغیر ہم فیصلہ دے دیں۔

سیکشن ٹو ون ڈی کالعدم ہونے کے بعد دہشتگردوں کا ٹرائل کہاں ہو گا؟ ‏جنہوں نے کل 23 جوان شہید کیے ان کا ٹرائل اب کس قانون کے تحت ہو گا– جسٹس طارق مسعود

جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ سیکشن ٹو ون ڈی کالعدم ہونے کے بعد دہشتگردوں کا ٹرائل کہاں ہو گا؟ ‏جنہوں نے کل 23 جوان شہید کیے ان کا ٹرائل اب کس قانون کے تحت ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل چلانے کی مشروط اجازت دینے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، اور بعدازاں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائلز کا فیصلہ معطل کردیا۔ اور کیس کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔

عدالت نے قرار دیا کہ نو مٸی کے واقعات میں زیر حراست ملزمان کا ٹراٸل جاری رہےگا ، خصوصی عدالتیں ٹراٸل مکمل ہونے پر حتمی فیصلہ نہیں سنائے گی۔

فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے جاری ہوا، جسٹس مسرت ہلالی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے حکم امتناعی کی مخالفت کی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مقدمے کے تمام فریقین کو آج کے لئے نوٹس جاری کر رکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: سابق چیف جسٹس کا طارق مسعود کی بینچ میں موجودگی پر اعتراض

وزارت داخلہ نے بھی سویلینز کے ٹرائل سے متعلق فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی

عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ نے سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا جس کے بعد وزارت دفاع، سندھ، پنجاب اور بلوچستان حکومت کے بعد وزات داخلہ نے بھی فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ چیلنج کیا تھا۔

Supreme Court

اسلام آباد

Civilians Trial in Military Courts