برطانیہ نے امیگریشن میں کمی کیلئے ویزا قواعد سخت کردیے
برطانیہ نے ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی امیگریشن میں کمی لانے کے لیے سخت ویزا شرائط کا اعلان کردیا ۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد سے برطانیہ کے سیاسی منظرنامے پر گذشتہ 10 سال سے اثرانداز ہو رہی ہے جبکہ برطانیہ آنے والے زیادہ تر تارکین کا تعلق بھارت، نائجیریا اور چین سے ہے۔
برطانوی حکومت نے قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کی تعداد کم کرنے اور ہنرمند افراد کی کم سے کم اجرت بڑھانے کا اعلان کیا ہے ۔
برطانوی وزیراعظم رشی سونک بھی اس معاملے سے نمٹنے کے لیے اپنے پُرعزم ہیں۔ ایکس پر اپنی پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ امیگریشن بیت بڑھ گئی ہے جسے کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
تین نکاتی ’امیگریشن ایکشن‘ میں سُونک نےواضح کیا کہ اوورسیز طلباء پر فیملیز کو برطانیہ لانے پر پابندی عائد کی جارہی ہے، جب تک کہ پوسٹ گریجویٹ ریسرچ ڈگری نہ لے رہے ہوں۔
برطانوی وزیراعظم کے مطابق امیگریشن کی وجہ سے برطانوی کارکنوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
وزیر داخلہ جیمز کلیورلی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نئے اقدامات سے تارکین کی تعداد کم ہو کر 3 لاکھ ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم رشی کا کہنا ہے کہ امیگریشن بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، اس کو کم کرنے کے لیے ہم خاطر خواہ اقدامات کر رہے ہیں۔
وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ حکومت ہنرمند افراد کے لیے کم سے کم اجرت 26 ہزار 200 پونڈ سے بڑھا کر 38 ہزار 700 کر رہی ہے اور صحت کے شعبے سے منسلک اور سماجی کارکن اس آسائش سے مستثنیٰ ہوں گے۔
حکومت کا مقصد غیرملکی ہیلتھ ورکرز کو اپنے اہل خانہ کو برطانیہ ساتھ لانے سے روکنا ہے جبکہ تارکین وطن کی جانب سے ہیلتھ سروسز کو استعمال کرنے پر کی جانے والی ادائیگی کو 66 فیصد بڑھایا جائے گا ساتھ ہی فیملی ویزا لگوانے کے لیے کم سے کم آمدنی کی حد کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔
مذکورہ اقدام کو کاروباری اداروں اور ٹریڈ یونینز نے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نجی شعبے اور سرکاری ہیلتھ سروس کے لیے چیلنجز بڑھ جائیں گے کیونکہ یہ شعبے افرادی قوت کی کمی کا شکار ہیں۔
خیال رہے کے ان اقدامات سے کاروباری مالکان کے ساتھ نئے تنازعات پیدا ہونے کے امکان بڑھنے لگے ہیں، جو پہلے سے ہی افرادی قوت کی کمی سے مشکلات سے دوچار ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں سال جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں کم از کم 11 لاکھ 80 ہزار افراد برطانیہ میں ایک سال کے قیام کی غرض سے آئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق ان میں سے پانچ لاکھ آٹھ ہزار واپس چلے گئے تھے۔
برطانیہ پہنچنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق یورپی یونین سے باہر کے ممالک سے تھا اور حالیہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 9 لاکھ 68 ہزارغیر یورپی ممالک سے آئے تھے۔
Comments are closed on this story.