گاڑیوں اور کارخانوں کے دھویں سے ہر سال 50 لاکھ افراد ہلاک ہو رہے ہیں، نئی تحقیق میں دعویٰ
حال میں ہونے والی نئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گاڑیوں اور کارخانوں کے دھویں سے ہر سال 50 لاکھ افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق دبئی میں ہونے والے ’کوپ 28‘ موسمیاتی سربراہی اجلاس کے موقع پر شائع ہونے والے اعداد و شمار کا مقصد عالمی رہنماؤں پر دباؤ بڑھانا ہے۔
’کانفرنس آف دا پارٹیز‘ یا کوپ اقوام متحدہ کے ’فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کا سپریم فیصلہ ساز پلیٹ فارم ہے۔
یواین کلائمیٹ چینج کانفرنس کی ویب سائٹ کے مطابق اس ’فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کا قیام مارچ 1994 میں ہوا تھا، جس کا مقصد زمین کے ماحولیاتی نظام کے ساتھ ’خطرناک‘ انسانی مداخلت کی روک تھام کرنا ہے۔
مذکورہ کانفرنس میں عالمی رہنماؤں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایندھن پر انحصار کرنے کی صلاحیت کو مرحلہ وار ختم کرنے پر اتفاق کیا جائے۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ایندھن کے بجائے صاف اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر انحصار کرنے سے فضائی آلودگی سے انسانی زندگیاں بچیں گی اور عالمی حرارت سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔
ایک نئے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صنعت، بجلی کی پیداوار اور نقل و حمل میں ایندھن کے استعمال سے فضائی آلودگی کے سبب عالمی سطح پر ایک سال میں 50 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ 2019 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی تعداد 80 لاکھ کے قریب ہے اور ایندھن پر انحصار کو کم کرکے ہی اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
محققین کی عالمی ٹیم نے لکھا کہ ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ ایندھن کوعالمی سطح پر مرحلے وار ختم کرنے سے صحت پر اثرات مرتب ہوں گے۔
گلوبل برڈن آف ڈیزیز 2019 کے مطالعے کے ساتھ ساتھ ناسا سیٹلائٹ پر مبنی باریک ذرات اور آبادی کے اعداد و شمار اور 2019 کے لیے ماحولیاتی کیمسٹری، ایروسول اور رسک ماڈلنگ کا استعمال کرتے ہوئے اضافی اموات کا اندازہ لگایا ہے۔
غیر یقینی صورتحال برقرار ہے لیکن 2050 تک پیرس موسمیاتی معاہدے کے آب و ہوا کی غیرجانبداری کے ہدف کو دیکھتے ہوئےصاف، قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے ایندھن کو تبدیل کرنے سے صحت عامہ اور آب و ہوا کے مشترکہ فوائد ہوں گے۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں 30 نومبر (آج سے) کوپ 28 کا اجلاس شروع ہو رہا ہے جس میں پاکستان سمیت 200 ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
Comments are closed on this story.