ایک اِن اور ایک آؤٹ، والیوم 10 کہاں گیا، سیاسی رہنماؤں کی بحث
نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس میں بریت اور عمران خان کی چئیرمین شپ جانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ ملک میں کسی کے اِن اور کسی کے آؤٹ ہونے کا سلسلہ 75 سال سے جاری ہے۔ جن کے پاکستان اِن اور آؤٹ کرنے کا اختیار ہے یعنی پاکستان کے عوام، وہ کبھی اپنا یہ اختیار استعمال نہیں کرسکے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا، سب پانچ سال کی مدت سے پہلے ہی آؤٹ ہوتے رہے۔ ان کی جگہ کوئی اور ان ہو کر آتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سیاست دائروں کے گرد گھوم رہی ہے، ان دائروں کا سفر ہم کب تک جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی کی نظر سے دیکھیں تو نواز شریف کا آج کا فیصلہ تسلیم کریں یا ماضی کا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ عدالتی نظام ایسا ہو جس پر تمام فریقین کو اعتماد ہو۔ لیکن ہماری عدالتوں نے انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں دیا، انہوں نے طاقتور حلقوں کے کہنے پر فیصلے دیے ہیں۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ غلطیاں درست کی جارہی ہیں، اگر غلطیاں درست کی جا رہی ہیں تو ایک غلطی اور ہوئی تھی ذوالفقار علی بھٹو کا قتل، ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی غلطی کب دور ہوگی؟
انہوں نے کہا کہ جو غلطیاں کی ہیں ان پر کوئی پوچھ سکتا ہے؟ کوئی نیب سے پوچھے گا؟ کوئی ان جج صاحبان سے پوچھے گا؟
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ کوئی بھی مرض ہوتا ہے تو اس کی پہلے تشخیص کرنی پڑتی ہے اور پھر علاج ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو کا قتل ہوا لیکن ان کا کیس حل نہ ہوسکا، بیماری کی تشخیص کرنے والوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا، پانامہ کے کیسز آئے یا شہادتیں آئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ اس ملک میں ہمیں حقیقی جمہوریت چاہئے یا کنٹرولڈ جمہوریت چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم غریب اور مڈل کلاس دائرے میں پھنسی ہوئی ہے، باقی تو اشرافیہ میوزیکل چیئر کھیل رہے ہیں۔
آصف کرمانی نے کہا کہ جس شخص کا پاناما میں نام تک نہیں تھا اسے پاناما میں سے اقامہ نکال کر سزا سنادی گئی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ والیوم 10 آج کہاں گیا جس کا بڑا تذکرہ تھا۔
ایک سوال کے جواب میں آصف کرمانی نے کہا کہ میاں صاحب کی اہلیت یا نااہلیت پارلیمنٹ نے طے کردی ہے، ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ ایک سپریم باڈی ہے تو وہ پھر ایک ایکٹ بن گیا ہے، اب زیادہ سے زیادہ سپریم کورٹ اس کی تشریح کرسکتی ہے، سپریم کورٹ ظاہر ہے آئین تو نہیں بنا سکتی یا قانون سازی تو نہیں کرسکتی‘۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح اب ان کیسز کا ’ٹائیں ٹائیں فش‘ ہورہا ہے اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ بوگس کیسز تھے۔
بیرسٹر گوہر کی بطور چئیرمین پی ٹی آئی نامزدگی پر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سوال یہ ہے الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم کرے گا؟ انہوں نے پچھلے الیکشن کو کہا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا دوبارہ کرائیں۔
ایک سوال کے جواب میں آصف کرمانی کا کہنا تھا سانحہ نو مئی کے کرداروں کو مائنس کرکے پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے ہیں، اگر جماعتیں الیکشن ٹھیک طریقے سے نہیں کروا پاتیں تو سیکشن 209 اور 210 کے تحت ان کا انتخابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے۔
Comments are closed on this story.