چین نے شمالی صوبوں میں سیکڑوں مساجد بند یا تبدیل کر دیں، ہیومن رائٹس واچ کا دعویٰ
چینی حکام نے چین کی مذہبی اقلیتوں کو ضم کرنے کی وسیع تر کوششوں کے طور پر شمالی علاقوں ننگشیا اور گانسو میں سیکڑوں مساجد کو بند یا تبدیل کر دیا ہے، جو سنکیانگ کے بعد چین میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والے حصے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے محققین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت ننگشیا خود مختار علاقے اور گانسو صوبے میں مساجد کی تعداد میں نمایاں کمی کر رہی ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) طویل عرصے سے چین کی مذہبی اور نسلی اقلیتوں پر سخت گرفت برقرار رکھے ہوئے ہے، اور 2016 کے بعد سے جب چین کے رہنما شی جن پنگ نے چین کے مذاہب کو سیکولر بنانے کا مطالبہ کیا تھا، مساجد میں تبدیلیوں کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔
اپریل 2018 میں بیجنگ نے ایک ہدایت جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری حکام ”اسلامی سرگرمیوں کے مقامات کی تعمیر اور ترتیب کو سختی سے کنٹرول کریں“ اور عمارتیں کم کرنے اور زیادہ گرانے کے اصول پر عمل کریں“۔
ہیومن رائٹس واچ کے محققین نے ننگشیا کے دو گاؤوں میں مساجد کے استحکام کی پالیسی کا جائزہ لینے کے لئے سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ کیا۔ اس میں پایا گیا کہ 2019 اور 2021 کے درمیان تمام سات مساجد سے گنبد اور مینار ہٹا دیے گئے تھے۔ ان میں سے چار مساجد کو نمایاں طور پر تبدیل کیا گیا تھا، تین اہم عمارتوں کو مسمار کردیا گیا تھا اور ایک کے وضو ہال کو نقصان پہنچا تھا۔
ننگشیا میں رجسٹرڈ مساجد کی کل تعداد کا ایک تہائی حصہ تقریبا1300 مساجد سال 2020 کے بعد سے بند کردی گئی ہیں۔ اس تخمینے میں وہ مساجد شامل نہیں جو اپنی غیر سرکاری حیثیت کی وجہ سے بند یا مسمار کی گئیں۔
حکومتی رپورٹس کے مطابق حالیہ برسوں میں بند یا تبدیل کی جانے والی مساجد کی تعداد سیکڑوں میں ہونے کا امکان ہے۔ 10 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر ژونگ وی میں حکام نے 2019 میں کہا تھا کہ انہوں نے 214 مساجد کو تبدیل کیا، 58 کو متحد کیا اور 37 ’غیر قانونی طور پر رجسٹرڈ مساجد پر پابندی عائد کی۔
جنگوئی شہر میں حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے 130 سے زائد مقامات کو ’درست‘ کیا جن میں ’اسلامی تعمیراتی خصوصیات‘ موجود ہیں۔
ننگشیا کے ایک امام نے ریڈیو فری ایشیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مسجد وں کے استحکام کی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کسی بھی مسجد کو ضم کرنا ہوگا۔ جب مساجد بند ہو جائیں گی تو بہت سے نوجوان اور درمیانی عمر کے لوگ مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے مساجد نہیں جائیں گے، اور اگلی نسل آہستہ آہستہ ایمان کھو دے گی اور اسلام پر اعتماد نہیں کرے گی، اس طرح مسلمانوں کو آہستہ آہستہ بدنام کیا جا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی قائم مقام چینی ڈائریکٹر مایا وانگ کا کہنا ہے کہ مساجد کی بندش، تباہی اور ان کی بحالی چین میں اسلام کے رواج کو روکنے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہے۔
چینی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’چین میں تمام نسلی گروہوں کے لوگ قانون کے مطابق مذہبی عقیدے کی آزادی کے مکمل حقدار ہیں۔ مذہبی عقیدے کی آزادی کے تحفظ کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے، دوسرے ممالک کی طرح، قانون کے مطابق مذہبی امور کا انتظام کرتا ہے.
مسجد کے استحکام کی پالیسی ننگشیا اور گانسو تک محدود نہیں ہے۔ آسٹریلین اسٹریٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ سنکیانگ کی 16,000 مساجد میں سے 65 فیصد 2017 سے اب تک تباہ ہو چکی ہیں۔
مئی میں چین کے جنوب مغربی صوبے یوننان کے ہوئی مسلم قصبے میں ایک اہم مقامی مسجد کے کچھ حصوں کو مسمار کرنے کی کوششوں پر پولیس اور سیکڑوں مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
Comments are closed on this story.