نواز شریف کو حکومت بنانی ہے تو پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کی مدد درکار ہوگی، حامد میر
پاکستان کے سینئیر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے نواز شریف کو حکومت بنانی ہے تو انہیں پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کی مدد درکار ہوگی۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں حامد میر نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی قائد ن لیگ نواز شریف، استحکام پاکستان پارٹی کے بانی جہانگیر ترین خان اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی سے ملاقاتوں پر خصوصی گفتگو کی۔
ایک سوال کے جواب میں حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اب بھی امریکی سفارت کاروں سے رابطے ہے اور ملاقاتیں کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ بلوم جہاں دیگر سیاستدانوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں وہیں وہ پی ٹی آئی کی قیادت سے بھی مل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو ایک طرف کہہ رہی تھی کہ امریکا سازش کر رہا ہے اور دوسری طرف امریکی ایلچی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی وہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے ملتے رہے اور میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ وہ اب بھی ملتے ہیں اور ملتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نہ صرف ان سے رابطے میں ہے بلکہ انہوں نے امریکا میں پیسے دے کر لابی کی خدمات حاصل کی ہیں جو امریکا میں امریکی کانگریس مینوں سے رابطہ کر رہی ہے۔
حامد میر نے کہا کہ جب عمران خان جیل میں نہیں تھے تو ان کا امریکی سفیر سے باقاعدگی سے رابطہ ہوا کرتا تھا، اس وقت پی ٹی آئی کے عہدیداران امریکا میں ان سے مل رہے ہیں اور طاقتور لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں عمران خان کے لیے آواز اٹھائیں اور جب سفیر سیاستدانوں سے ملتے ہیں تو وہ اس پر تنقید کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں میں پاکستانی سیاست میں سفیروں کی مداخلت کے خلاف ہوں لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہماری سیاست میں بھی مداخلت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں بلوم، جین رائٹ (برطانیہ کی ہائی کمشنر)، آئی ایم ایف، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور یورپی یونین کے کچھ سفیروں کا پاکستان میں انتخابات کرانے میں کردار ہے۔
حامد میر کے مطابق آئی ایم ایف نے اس وعدے پر معاہدہ کیا کہ انتخابات ہوں گے اور انتخابات مارچ 2024 سے پہلے ہوں گے، لہذا اگر انتخابات کے انعقاد میں 50 فیصد کام سپریم کورٹ کا ہے اور 30 سے 40 فیصد رول آئی ایم ایف کا ہے تو 5 سے 10 فیصد رول امریکا، برطانیہ اور سعودی عرب کا بھی ہے۔
لفظ ”لاڈلا“ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ طعنے دے رہے ہیں اور تنقید کر رہے ہیں جنہوں نے لاڈلا بننے کی کوشش کی اور وہ نہیں بن سکے۔
انہوں نے کہا کہ شہباز کو وزیراعظم بنانے میں بلاول کا کردار تھا، لیکن میں کہوں گا کہ شہباز کو مسلط کرنے میں پیپلز پارٹی اور بلاول نے کردار ادا کیا۔ تو پیپلز پارٹی نے بھی لاڈلا بننے کی کوشش کی اور ن لیگ نے بھی، ن لیگ لاڈلہ بن گئی ہے اور پیپلز پارٹی نہ بن سکی۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا پی ٹی آئی نے لاڈلا بننے کی پوری کوشش نہیں کی؟ کیا باجوہ کو تاحیات توسیع کی پیشکش لاڈلا بننے کی کوشش نہیں تھی؟ اور جب عاصم منیر آرمی چیف بنے تو آپ نے کہا کہ آپ ان سے ملنا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں ملے۔
حامد میر نے کہا کہ ایک طرف عمران خان جنرل فیصل نصیر کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کر رہے تھے اور دوسری طرف انہیں آرمی چیف سے بات چیت کے لیے منتیں بھیج رہے تھے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، جنہیں عمران خان نے کہا کہ فیصل نصیر سے ان کی بات کرائیں، انہوں نے پوری کوشش کی کہ فیصل نصیر عمران خان سے ملیں، لیکن فیصل نصیر نے کہا کہ میں ایسے نہیں مل سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ن لیگ کو پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد کرنا ہے تو ماضی میں بھی ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے اتحاد کیا گیا تھا، جب تک جے آئی (ف) سندھ میں ن لیگ کے ساتھ نہیں آجائے ن لیگ کو سندھ میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوگی، کیونکہ لاڑکانہ، سکھر، شہداد کوٹ میں جے یو آئی (ف) کا ووٹ بینک ہے۔ لیکن فضل الرحمان اپنے باجوہ اور فیض مخالف موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خدا کا شکر ہے رانا ثناء اللہ نے یہ نہیں کہا کہ وہ 141 میں سے 161 سیٹیں لے سکتے ہیں، سیاستدان ایسا کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک میٹنگ میں نواز شریف نے رانا ثناء اللہ سے پوچھا کہ آئی پی پی بن گئی ہے اور بہت سے لوگوں نے مجھے کہا کہ ن لیگ میں آئیں گے لیکن وہ آئی پی پی میں چلے گئے، رانا ثناء اللہ نے کہا کہ فکر نہ کریں، آئی پی پی سے الیکشن لڑیں تو بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ امیر مقام نے بھی ان سے کچھ باتیں شیئر کی ہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اگر ثناء اللہ کے خیال میں ن لیگ کو 121 سیٹیں مل سکتی ہیں کہ جو 40 سے 50 الیکٹیبلز آئی پی پی میں بنائے گئے ہیں کیا وہ ہارنے کے لیے وہاں موجود ہیں؟
حامد میر نے کہا کہ جہانگیر ترین کی آئی پی پی اور پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کی سیٹیں ہوں گی۔ اگر آپ نے حکومت بنانی ہے اور نواز شریف کو وزیراعظم بننا ہے تو یہ اس وقت جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی مدد سے ہوگا۔ آپ کو ان پر کچھ مہربانی کرنی پڑے گی۔ یہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہے، لیکن ہتھیار ڈال دیں کیونکہ اس سے ووٹ کو عزت دو ختم ہو جائے گا۔
Comments are closed on this story.