Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

اسرائیلی فوج میں حماس کیخلاف لڑنے والے ’دروز‘ عرب کون ہیں؟

حرفیش گاؤں کو ”تشال“ کا عرفی نام بھی دیا گیا ہے، جس کا عبرانی زبان میں مطلب "اسرائیلی فوج“ ہے۔
شائع 16 نومبر 2023 11:24pm
اسرائیلی فوجی شمالی دروز گاؤں حرفیش میں ایک ٹریننگ کے دوران (تصویر: اے ایف پی)
اسرائیلی فوجی شمالی دروز گاؤں حرفیش میں ایک ٹریننگ کے دوران (تصویر: اے ایف پی)

لبنان سے متصل اسرائیلی سرحد کے قریب واقع ایک عرب گاؤں ”حرفیش“ میں اس وقت زیادہ تر خواتین ہی موجود ہیں کیونکہ گاؤں سے بہت سے حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیلی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کیلئے اگلے محاذوں پر چلے گئے ہیں۔ یہ گاؤں عربوں میں پائی جانے والی ایک مذہبی اقلیت ”دروز“ کا مسکن ہے۔

الجلیل میں ہر طرف دروز اور اسرائیلی پرچم نظر آتے ہیں، دروز اسرائیلی حب الوطنی کے جذبے سے لبریز ہیں۔ حالانکہ حماس نے حملہ شمال سے بہت دور جنوبی اسرائیل پر کیا تھا لیکن اس غیر معمولی حملے نے حرفیش کو چوکنا کر دیا تھا، جس کے بعد یہ گاؤں اسرائیلی فوجیوں کی حمایت کے لیے حرکت میں آیا۔

جنگ شروع ہونے کے بعد حرفیش میں اسرائیلی فوج کے یونیفارم تیار کرنے کے لیے ایک فیکٹری شروع کی گئی ہے، یہاں کاروں پر اسرائیلی پرچم کے رنگ کے نیلے اور سفید عربی رسم الخط والے اسٹیکرز لگے ہوئے ہیں۔

حماس کے بے مثال حملے کے بعد تشکیل پانے والے مسلح دفاعی گروپ کے رہنما حسن ربخ نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ”اے ایف پی“ کو بتایا کہ 7 ہزار دیہاتیوں میں سے تقریباً 80 فیصد لوگ فوج، پولیس، انٹیلی جنس، یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرتے ہیں۔

حرفیش گاؤں کو ”تشال“ کا عرفی نام بھی دیا گیا ہے، جس کا عبرانی زبان میں مطلب ”اسرائیلی فوج“ ہے۔

 تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

حرفیش کے رہنے والے مرد لبنان کے ساتھ شمالی اسرائیل کی سرحد پر مسلسل گشت کررہے ہیں۔ اس سرحد پر لبنان سے عسکریت پسند ملیشیا اور حماس کی اتحادی حزب اللہ کے درمیان سات اکتوبر کے بعد مسلسل کشیدگی پائی جاتی ہے۔

حسن ربخ نے بتایا کہ، ’لبنان کی سرحد سے صرف چار کلومیٹر دور ہیں، ہمارے گاؤں میں کوئی باڑ بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہماری دو گاڑیاں مسلسل گشت کرتی رہتی ہیں‘۔

دنیا میں اقلیتی کمیونٹیز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ”مائنورٹی رائٹس گروپ“ کے مطابق دروز ایک مذہبی کمیونٹی ہے جو نسلاً عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔

ان کا مذہب توحید پرستی پر مبنی ہے اور ان کے عقائد میں اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے تصورات بھی شامل ہیں۔ دروز مذہب پر یونانی فلسفے اور ہندو مت کے اثرات بھی ہیں۔ گیارہویں صدی عیسوی کے بعد سے دروز اپنے مذہب کا پرچار نہیں کرتے۔

یہ فرقہ ہزار سال قبل اس پہاڑی علاقے میں رہنے کے لیے آیا تھا، جو کہ جنگ کی زد میں آنے والے تین ممالک میں بٹا ہوا ہے۔ دروز زیادہ تر ناصرف شام اور لبنان بلکہ اسرائیل میں بھی ہیں، جبکہ کچھ اردن میں رہتے ہیں۔

ہر ملک میں، دروز نے مذہبی وجوہات کی بناء پر مقامی جھنڈے سے وابستگی کا انتخاب کیا۔

حرفیش کے سیاسی رہنما موفد مراعی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہر دروز کا تعلق عقیدت کی حد تک اس زمین سے ہے جو اسے وہاں رہنے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ ایک غیر متزلزل تعلق ہے‘۔

دروز اسرائیل کی آبادی کا صرف دو فیصد ہے، جس میں گولان کی پہاڑیوں سے منسلک دروز کے رہائشی بھی شامل ہیں جو بڑی حد تک اسرائیلی شہریت کو مسترد کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہیں اسرائیلی پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں میں خاطر خواہ نمائندگی حاصل ہے۔

مجموعی طور پر، عرب اسرائیلی اسرائیل کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے ان کا کہنا ہے کہ وہ نفرت کے بڑھتے ہوئے جرائم اور حملوں کی وجہ سے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔

لیکن اس سے پہلے بھی، حقوق کی تنظیموں نے اکثر اقلیتی گروہوں کو اسرائیلی شہریت رکھنے کے باوجود اور اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز میں دروز کمیونٹی سروس کے معاملے میں ان کے ساتھ ہونے والے باقاعدہ امتیازی سلوک کو اجاگر کیا۔

موفد مراعی کے مطابق، حالیہ ہفتوں میں دروز کمیونٹی کے 40 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں، زیادہ تر 7 اکتوبر کو حماس کے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے کیے گئے فوجی آپریشن کے دوران مارے گئے تھے۔

اس وقت سے اب تک کل 300 سے زیادہ اسرائیلی فوجی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں 53 غزہ میں مارے گئے ہیں۔

Israeli army

Druze

Hurfeish