Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

غزہ کے الشفاء اسپتال میں نوزائیدہ فلسطینی بچوں کو موت کے منہ میں دے دیا گیا

'تین نوزائیدہ بچے انتقال کرگئے، 37 صبح تک چل بسیں گے'
شائع 12 نومبر 2023 09:54pm
الشفاء اسپتال کے باہر کا منظر (تصویر: روئٹرز)
الشفاء اسپتال کے باہر کا منظر (تصویر: روئٹرز)

غزہ کے الشفاء اسپتال میں نوزائیدہ انتہائی نگہداشت یونٹ (این آئی سی یو) میں بجلی کی کمی کی وجہ سے مشینوں کے کام کرنا چھوڑ دینے پر تین قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی موت ہو گئی ہے۔

اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ نے ہفتے کو الجزیرہ کو بتایا کہ سینتیس دیگر بچے، جو کہ نوزائیدہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں موجود ہیں موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

اس حوالے سے برطانوی ٹی وی ہوسٹ پئیرس مورگن نے لکھا کہ ’الشفاء اسپتال میں بجلی اور آکسیجن ختم ہونے کی وجہ سے درجنوں نوزائیدہ بچوں کو ان کے انکیوبیٹرز سے نکال لیا گیا ہے‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’اسرائیل کو انہیں حفاظت اور طبی علاج تک پہنچانے کے لیے جتنی جلدی ہوسکے کچھ کرنا چاہیے۔‘

غزہ کے سب سے بڑے میڈیکل کمپلیکس کے سربراہ ابو سلمیہ نے کہا کہ ’بدقسمتی سے، ہم بجلی کی بندش کی وجہ سے 39 میں سے دو بچے کھو چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جنہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ دونوں بچوں کی موت اسپتال میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے ہوئی جو گرم درجہ حرارت اور آکسیجن کے مسلسل بہاؤ کے لیے انکیوبیٹرز کو بجلی فراہم کرتا ہے۔

ڈائریکٹ ابو سلمیہ نے کہا کہ ’اب ہم انہیں (بچوں کو) زندہ رکھنے کے لیے قدیم طریقے استعمال کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’ہمارے پاس صبح تک بجلی کا انتطام ہے۔ ایک بار جب بجلی بند ہو جائے گی، یہ نوزائیدہ بچے بھی دوسروں کی طرح مر جائیں گے‘۔

الشفاء اسپتال کے ایک سرجن محمد عبید نے نومولود بچوں کی موت کی تصدیق کی اور کہا کہ ایک بالغ مریض بھی اس لیے مر گیا کیونکہ اس کے وینٹی لیٹر کے لیے بجلی نہیں تھی۔

اسپتال میں موجود عینی شاہدین نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو فون پر بتایا کہ گولیوں کی مسلسل بوچھاڑ، ہوائی حملے اور گولہ باری کی وجہ سے لوگ میڈیکل کمپلیکس کے اندر بھی جانے سے منع کر رہے تھے۔

ابو سلمیہ کے مطابق، اسپتال نے ریڈ کراس کے ساتھ انخلاء کا بندوبست کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ مدد کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’جب ہم نے ریڈ کراس سے بات کی، ان سے تحفظ کی درخواست کی، تو انہوں نے ہمیں ایک گھنٹے میں بچوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ان (بچوں) کو زندہ رکھنے کے لیے ایمبولینسوں اور انکیوبیٹرز کے ساتھ باہر نکلنے اور محفوظ نقل و حمل کی ضرورت ہے۔ اگر ریڈ کراس کی طرف سے یہ ضمانتیں پیش کی جاتی ہیں، تو ہم یہ کریں گے۔‘

ابو سلمیہ نے اس بات کی تردید کی کہ اسرائیلی فوج نے انخلاء کا انتظام کرنے کی کوششوں کے باوجود بچوں کو منتقل کرنے میں مدد کی پیشکش کی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’میں نے انہیں (اسرائیلی فوج) کو یہ پیشکش کی تھی۔ میں نے ایمبولینس کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کو محفوظ مقامات پر لے جانے کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا‘۔

خیال رہے کہ اسرائیلی فوج نے ہفتے کو کہا تھا کہ وہ بچوں کو نکالنے میں مدد کرے گی۔

غزہ میں بچوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں، یونیسیف

یونیسیف کے ترجمان ٹوبی فریکر نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسپتالوں کی صورت حال ایک المیہ ہے۔

اردن سے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے بتایا کہ کس طرح الشفاء اسپتال کے اندر قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے بجلی اور پانی کی کمی کی وجہ سے زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پوری پٹی میں کہیں بھی بچوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے‘۔

اسپتالوں سے زبردستی نکالے جانے والے مریضوں کو یقینی موت کا سامنا

فلسطینی وزیر برائے صحت مائی الکائیلہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز ’اسپتالوں سے لوگوں کو نکال نہیں رہی ہیں۔ اس کے بجائے، وہ زخمیوں اور مریضوں کو زبردستی سڑکوں پر لا رہے ہیں، جس سے انہیں ناگزیر موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے حوالے سے انہوں نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ ’یہ انخلاء نہیں ہے بلکہ ہتھیاروں کے خطرے کے تحت بے دخلی ہے۔‘

’اسپتالوں میں ایک تباہی پھیل رہی ہے، جس میں اب مریض بغیر علاج کے مر رہے ہیں، جیسے کہ بچے اور بڑوں کے گردے فیل ہو رہے ہیں جو ڈائیلاسز کے سیشن کے بغیر گھر میں ہی مر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ الرانتیسی اور ترکیہ کے اسپتالوں میں زیر علاج تمام 3000 کینسر کے مریضوں کو اسرائیلی فورسز کی جانب سے زبردستی بے دخل کرنے کے بعد موت کے منہ میں جانے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔

غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ الشفاء اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ (آئی سی یو) کو دوسری بار اسرائیلی فوج کی بمباری سے بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

غزہ کے اسپتالوں کے ڈائریکٹر جنرل نے خبردار کیا ہے کہ الشفاء اسپتال کی تباہ کن صورتحال کے باعث سینکڑوں مریضوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔

محمد ذقوت نے ایک پریس کانفرنس میں مصر سے جان بچانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 36 بچوں سمیت تقریباً 650 مریضوں کی جان کو خطرہ ہے۔

ذقوت نے الشفاء میڈیکل کمپلیکس میں تقریباً 1,500 بے گھر افراد کی موجودگی کی بھی تصدیق کی’ اور خبردار کیا کہ ’کوڑا کرکٹ اور طبی فضلہ جمع ہونا، پانی کی کمی اور بجلی کی بندش سے ہر ایک کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے‘۔

محکمہ صحت کے اہلکار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملے نے الشفاء اسپتال کے کارڈیک وارڈ (امراض قلب کا وارڈ) تباہ کر دیا۔

غزہ کے نائب وزیر صحت یوسف ابو الریش نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’قابض اسرائیل نے الشفاء اسپتال کے کارڈیک ڈیپارٹمنٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے… فضائی حملے میں دو منزلہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔‘

غزہ کا سب سے بڑا اسپتال مکمل طور پر ختم

غزہ میں وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ الشفاء اسپتال مکمل طور پر سروس سے باہر ہے، اور مسلسل اسرائیلی حملوں کی وجہ سے اسپتال کے اندر موجود مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم نہیں کر سکتا۔

اسرائیلی بمباری آس پاس کے بیرونی ماحول کے ساتھ ساتھ صحن کے اندر اور اس کی مختلف عمارتوں کے درمیان چلنے والے افراد اور کمپلیکس کے گیٹ تک پہنچنے کے خواہشمند افراد کو نشانہ بنا رہی ہے۔

القدرہ نے کہا، ’ہمارے پاس نرسری میں اموات ہوئیں جب لائف سپورٹ مشینوں نے سیکشن کے اندر کام کرنا بند کر دیا جس میں 37 دیگر بچے بھی شامل ہیں جو موت کے دہانے پر ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ زخمیوں میں پانچ اموات ہوئیں کیونکہ طبی ٹیمیں بجلی کی بندش اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے ان پر سرجیکل آپریشن کرنے سے قاصر تھیں۔

غزہ کی سب سے بڑی طبی سہولت الشفاء اسپتال کے عملے نے مریضوں کے لیے سنگین حالات بیان کیے ہیں، جن میں نوزائیدہ بچے بھی شامل ہیں جنہیں بجلی کی بندش کی وجہ سے کام کرنے والے انکیوبیٹرز تک رسائی نہیں ہے۔

اسرائیل کے اس انکار کے باوجود کہ اسپتال پر حملہ کیا جا رہا ہے، اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ کمپلیکس کو اسرائیلی فورسز نے گھیر لیا ہے اور اسے گولہ باری اور سنائپر فائر سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر فضل نعیم العہلی عرب اسپتال میں سرجن ہیں، جو غزہ شہر اور شمالی علاقوں میں کام کرنے والا آخری اسپتال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسپتال لاشوں سے بھرا ہوا ہے۔

غزہ میں مقیم فلسطینی سرجن غسان ابو سیتا کا کہنا ہے کہ العہلی عرب اسپتال میں خون ختم ہو چکا ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’ہمارے زخمی مریض سرجری کے بعد مر رہے ہیں کیونکہ ہم انہیں منتقل نہیں کر سکتے‘۔

الشفاء اسپتال کو خالی کرنے کے اسرائیلی فورسز کے مطالبے کے جواب میں، غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’ان زخمیوں کو نکالنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر قابض افواج کمپلیکس کو خالی کرنا چاہتی ہے، تو وہ صرف مریضوں کو عرب جمہوریہ مصر کے اسپتالوں میں لے جا سکتی ہے کیونکہ زخمیوں کو نکالنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔‘

القدرہ نے کہا کہ بہت سے بچے اس وقت ہلاک ہوئے جب انہیں اسرائیلی فورسز نے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا کیونکہ وہاں زندگی کی مدد کے آلات نہیں تھے۔

’لہذا، ہم شفا میڈیکل کمپلیکس کے اندر موجود 650 مریضوں کے خلاف یہ جرم نہیں دہرانا چاہتے۔ کمپلیکس کو مریضوں کو جنوبی غزہ کی پٹی کے اسپتالوں میں نہیں پہنچایا جا سکتا، جہاں زخمیوں کا بھی ہجوم ہے اور ان کے جنریٹرز میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے یہ دو دن سے بھی کم وقت میں کام کرنا چھوڑ دے گا۔‘

اسپتالوں سے دور رہیں، آئی سی آر سی

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ مارڈینی کا کہنا ہے کہ غزہ کے سینکڑوں زخمیوں کا علاج کرنے والے اسپتالوں کو کسی بھی صورت میں نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔

’اسپتالوں کو ہر وقت مکمل طور پر محفوظ ہونا چاہئے۔ یہ ذمہ داری ہمیشہ تنازعہ کے فریقوں پر ہوتی ہے کہ وہ اسپتالوں کو جنگی علاقے کے طور پر استعمال نہ کریں۔

’یہاں تک کہ اگر کسی پارٹی کی طرف سے کسی اسپتال کو حملوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ اس بات کا جواز نہیں بنتا کہ اسپتالوں کو ایسے وقت میں نشانہ بنایا جائے جب خواتین، بچوں اور مردوں کا علاج ہو رہا ہو۔ وہ پناہ گاہیں ہیں جن کی حفاظت کی جائے۔‘

مارڈینی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ہم تمام فریقوں سے اسپتالوں سے دور رہنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں۔

Gaza

Gaza War

Death toll Gaza

Al shifa Hospital

Newborns Died

Premature babies