Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا مقدمہ براہ راست نشر کرنے کا مطالبہ کردیا

امریکی قانون کے مطابق وفاقی عدالت میں فوجداری اور دیوانی کارروائیاں براہ راست نہیں دکھائی جاسکتیں
شائع 12 نومبر 2023 11:19am
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ رائٹرز
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ رائٹرز

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں دھاندلی کے مقدمے کی براہ راست نشریات کا مطالبہ کردیا ہے، اور اس حوالے سے ان کے وکلاء نے درخواست بھی دائر کردی ہے، تاہم قانون کے مطابق وفاقی مقدمات کی براہ راست نشریات کی اجازت نہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں شکست کو تبدیل کرنے کی سازش کرنے کے الزام میں ان کے مقدمے کی براہ راست اور کمرہ عدالت میں ٹیلی ویژن کوریج کی اجازت کی درخواست کردی ہے۔ تاکہ سابق صدر عوامی سطح پر یہ دلیل دے سکیں کہ یہ کارروائی غیر منصفانہ ہے۔

دوسری جانب امریکا میں کئی دہائیوں سے یہ قانون نافذ ہے کہ وفاقی عدالت میں فوجداری اور دیوانی کارروائیوں کی براہ نشریات نہیں دکھائی جاسکتیں، جس میں عام طور پر عوام ذاتی طور پر شرکت کر سکتے ہیں۔ اور ٹرمپ کے وکلا کی جانب سے جمع کرائی گئی 5 صفحات پر مشتمل درخواست میں اس اصول کا ذکر نہیں کیا گیا۔

پولیٹیکو کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے مطالبہ کیا کہ امریکا اور اس سے باہر ہر شخص کو اس کیس کا براہ راست مطالعہ کرنے اور یہ دیکھنے کا موقع ملنا چاہئے۔

امریکی خبر رساں اداروں نے بھی مقدمے کی سماعت براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھانے کی حمایت کی، جس پر استغاثہ نے میڈیا اداروں کی کوششوں کے جواب میں نشریات کے خلاف وفاقی عدالت سے رابطہ کرلیا ہے، اور حکومت نے یہ دلیل دی کہ مقدمے کی ٹیلی ویژن نشریات سے کارروائی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، جس میں گواہوں اور جیوری کو ممکنہ طور پر ڈرانے دھمکانے کی سہولت بھی شامل ہے۔

سابق صدر ٹرمپ 4 مجرمانہ مقدمات اور متعدد دیوانی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، اور 2024 میں ریپبلکن پارٹی کی وائٹ ہاؤس نامزدگی کے مقابلے سے قبل قانونی خطرے کو ووٹروں کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکا میں ٹرمپ کو آئندہ سال کے لیے ریپبلکن صدارتی امیدوار کے طور پر پسندیدہ قرار دیا جارہا ہے، تاہم ایک حکم نامے کے تحت پر انہیں اسیکیوٹرز، ممکنہ گواہوں اور عدالتی عملے کی مذمت کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

سابق صدر نے شکایت کی ہے کہ اس حکم نامے سے ان کی صدارتی مہم کے ساتھ ساتھ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

حکم نامے پر عمل درآمد سے قبل ٹرمپ نے اس معاملے میں خصوصی وکیل جیک اسمتھ کو ’پریشان‘ قرار دیا تھا۔ اور وائٹ ہاؤس کے اپنے سابق چیف آف اسٹاف مارک میڈوز کی گرینڈ جیوری کے سامنے گواہی پر بھی تبصرہ کیا تھا۔ جس پر استغاثہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ واضح طور پر اس کیس کے ایک عینی شاہد کو دھمکی آمیز پیغام دینے کی کوشش کر رہے تھے۔

اکتوبر کے اواخر میں امریکی ڈسٹرکٹ جج تانیا چٹکن نے اس حکم نامے پر عمل درآمد کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ جج نے ٹرمپ کی جانب سے حکم معطل کرنے کی درخواست کو بھی مسترد کردیا، جبکہ ان کے وکلا نے اس حکمنامے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کردی ہے۔

Donald Trump

Former US President