Aaj News

منگل, دسمبر 24, 2024  
21 Jumada Al-Akhirah 1446  

فاطمہ کیس: ’ایک سے زائد افراد نے زیادتی کی‘ لمس جامشورو کی لیبارٹری نے سیمپل کی رپورٹ مثبت دی، نگراں وزیر

فاطمہ قتل کیس: مرکزی ملزم اسد شاہ کے ڈی این اے اجزا میچ کر گئے
اپ ڈیٹ 09 نومبر 2023 08:22pm
مرکزی ملزم پیر اسد شاہ۔ فوٹو — فائل
مرکزی ملزم پیر اسد شاہ۔ فوٹو — فائل

نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹرسعد خالد نے نگراں وزیر قانون عمرسومرو کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاطمہ فرڑو سے زیادتی کے سیمپل پنجاب بھی بھیجے گئے تھے، پنجاب سے سیمپل رپورٹ منفی آئی تھی، تاہم لمس جامشورو کی لیبارٹری نے سیمپل کی رپورٹ مثبت آئی تھی۔ رپورٹ کےمطابق ایک سے زائد افراد نے بچی سے زیادتی کی تھی۔

یاد رہے کہ صوبائی وزیرقانون عمر سومرو نے کہا تھا کہ سندھ سے سیمپل منفی آنے پر پنجاب سے ٹیسٹ کرایا گیا تھا، جہاں سے رپورٹ مثبت آئی تھی۔

ڈاکٹر سعد خالد نے مزید کہا کہ نگراں وزیر قانون اور داخلہ کیس پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، غفلت پر ایم ایس خیرپور سمیت 2 افراد کےخلاف کارروائی کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ فاطمہ قوم کی بیٹی ہے، جس کے ساتھ انتہائی سفاکانہ عمل کیا گیا تھا، کسی کی بھی غفلت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا، کیس میں مزید پیشرفت سے متعلق جلد ہی میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا، کیس کو مکمل تفتیش و ثبوتوں کی بنیاد پر منطقی انجام تک پہنچائیں گے

صوبائی وزیر قانون

سندھ کے نگراں وزیر صحت کی وضاحت سے قبل نگراں صوبائی وزیر قانون عمر سومرو نے اسد شاہ کے ڈی این اے اجزا میچ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ محکمہ صحت سندھ کے افسران نے ملزم سے تعلقات کی بنا پر ڈی این اے سیمپلز خراب کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور کی لیبارٹری نے مثبت رپورٹ دے دی، ڈی این اے رپورٹ میں ملزم کے اجزا میچ کرنے کی خبر بہت اہم ہے۔

نگراں وزیر داخلہ سندھ حارث نواز نے کہا کہ تفتیشی افسران کوئی اہم شواہد ضائع نہ کریں تاکہ ملزم کو قرار واقعی سزا دلائی جائے، ضرورت پڑنے پر کوئی اچھا وکیل بھی مقرر کیا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ تین ماہ قبل تھانہ رانی پور کے قریب پیروں کے حویلی سے دس سالہ بچی فاطمہ فرڑو کے تشدد زدہ لاش ملی برآمد ہوئی تھی رات کو والدین کے حوالے کر کے بتایا گیا تھا کہ بچی طبیعت خرابی کے باعث انتقال کر گئی۔

فاطمہ فرڑو ڈسٹرکٹ نوشہرو فیروز کے علاقے خان واہن کے رہائشی تھی، اس کے اہل خانہ کو یہ موقف دیا گیا کہ بچی بیمار تھی تاہم تین دن بعد بچی کے فٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جس میں بچی کو تشدد کا نشانا بنایا گیا تھا۔

ویڈیو میں بچی کے کمرے میں حویلی کے مالک پیر سید اسد شاہ کو دیکھا گی تھا، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بچی کے ماں کا ویڈیو جاری ہوا ہے کہ بچی پر تشدد ہوا ہے اس کا پوسٹ مارٹم اور قبر کشائی کارروائی جائے اور پوسٹ مارٹم میں رانی پور رورل ہیتلھ سینٹر والوں نے پیروں کے بااثر ہونے کے وجہ سے میڈیکل رپورٹ میں کہا کہ بچی کے موت سانس روکنے کے باعث ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں:

فاطمہ قتل کیس کی تحقیقات جاری، انویسٹی گیشن افسر کو تبدیل کردیا گیا

رانی پور ملازمہ کیس: درگاہ غوثیہ کے گدی نشین پیر کا بھائی زیر حراست

واقعہ کا نوٹس اس وقت کے ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی نے لیا اور فاطمہ فرڑو کی ماں شمیم فرڑو کے مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔

پولیس پیر اسد شاہ کی حویلی کا سرچ آپریشن کر کے کمرے سے ڈی وی آر اپنے قبضے میں لے گئی اور حویلی کے مالک سید اسد شاہ، ان کی بیوی حنا شاہ، سید فیاض شاہ اور نائب قاصد امتیاز میراسی کے اوپر مقدمہ درج کر لیا گیا۔

نائب قاصد امتیاز میراسی جو رانی پور سرکاری اسپتال میں چپراسی تھا وہ حویلی میں بچی فاطمہ فرڑو کا علاج کرتا تھا، ڈی آئی جی سکھر نے غفلت برتنے والے ایس ایچ او رانی پور امیر چانگ رانی پور رورل سینٹر کے انچارج ڈاکٹر سمیت سب کو گرفتار کیا۔

پانچ دن حوالات میں رکھنے کے بعد نائب قاصد کے علاوہ دیگر اسپتال کے عملے کو انکوائری میں بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا گیا۔

افسوس ناک واقعے کا نگراں وزیراعلی نے بھی نوٹس لیا اور ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جس میں بچی کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم جوڈیشل مجسٹریٹ کی نگرانی میں چھ رکنی ڈاکٹرز کی ٹیم نے کیا۔

ایک ہفتے کے بعد ابتدائی رپورٹ نواب شاہ میڈیکل بورڈ نے جاری کی جس کے مطابق بچی کے اوپر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہوئی جس کے بعد پولیس نے حویلی کے 20 سے زائد افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جو مختلف لیبارٹری کو بھیجا گیا۔

ایف آئی آر میں نامزد ملزم پیر سید فیاض شاہ اور حنا شاہ کی عبوری ضمانت رد ہونے پر پولیس نے ان کو گرفتار بھی کر لیا، اس وقت مقدمے میں کل چار ملزمان جیل کسٹدی میں ہیں جن میں مرکزی ملزم پیرسید اسد شاہ، اہلیہ حنا شاہ، اہلیہ کے والد فیاض شاہ اور نائب قاصد امتیاز میراسی شامل ہیں۔

خیرپور کی عدالت میں مسلسل تیں ماہ کیس چلنے کے باوجود پولیس تاحال شوہد پیش کرنے میں ناکام رہی، کیس میں اب تک چار تحقیقاتی افسر تبدیل ہوچکے ہیں۔

گذشتہ دو ماہ سے پولیس مرکزی ملزم کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ کوڈ بھی حاصل نہ کرسکی۔

گزشتہ روز پولیس نے کیس کا حتمی چالان عدالت میں پیش کیا اور ملزمان کو اب 24 نومبر کو انسدادِ دہشتگردی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

Khairpur

fatima murder case