Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت پر اعتماد نہیں تو بتادیں، جسٹس میاں گل حسن کا وکیل سے مکالمہ

اس کیس کے حوالے سےغلط رپورٹنگ ہوئی ہے، جسٹس میاں گل حسن
اپ ڈیٹ 07 نومبر 2023 03:06pm
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان۔ فوٹو:فائل
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان۔ فوٹو:فائل

چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ اپنے مؤکل سے پوچھ کر بتادیں کہ انہیں اس عدالت پر اعتماد ہے یا نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں سزا کےخلاف اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود نے سماعت کی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے معاون نے عدالت میں استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ کیس کو 20 نومبر تک ملتوی کردیا جائے، وکیل امجد پرویز بیرون ملک ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے معاون وکیل سے استفسار کیا کہ امجد پرویزکی طرف سے التواکی درخواست آئی ہے، وہ کب تک واپس آجائیں گے۔

عدالت نے وکیل الیکشن کمیشن کی التوا کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت20 نومبر تک ملتوی کردی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی دو مزید درخواستوں پر سماعت

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورجسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کے حوالے سے ایک معروف اخبار میں غلط خبر شائع کی گئی، ہائیکورٹ نے اُس غلط خبر پر وضاحتی پریس ریلیز جاری کی، اخبار نے تردید شائع کی لیکن وہ اتنی واضح نہیں تھی جتنی کہ غلط خبرچھپی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت سے کہا کہ ہمیں بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔

مزید پڑھیں:

9 مئی کے مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل ہوگا، ایس ایس پی انوسٹی گیشن

جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے موکل سے ہدایات لے کرعدالت کو آگاہ کردیں، اگر آپ کو اس عدالت پر اعتماد نہیں تو بھی ہمیں بتا دیں۔

مزید پڑھیں: چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی ضمانت کی درخواستیں ایک ساتھ سماعت کے لئے مقرر

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کیس کے حوالے سے اپنے دلائل میں کہا کہ وزارت قانون نے عدالت اٹک جیل منتقل کرنے کا این او سی جاری کیا، ہائیکورٹ نے جیل سماعت کے خلاف درخواست پر 12 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ محفوظ فیصلہ 16 اکتوبر کو سنایا گیا اس دوران وزارت قانون نے مزید دو نوٹیفکیشنز جاری کر دیے، ہم وہ دونوں نوٹیفکیشنز بھی عدالتی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، وزارت قانون نے لکھا کہ انہیں چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل پر کوئی اعتراض نہیں۔

مزید پڑھیں:

چیئرمین پی ٹی آئی کو سائیکل کیا موٹر سائیکل بھی دے دیں گے، جج ابوالحسنات

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ وزارت قانون نے تو جیل ٹرائل کا این او سی جاری کیا، ٹرائل جیل میں چلانے سے متعلق اجازت دینے کا اختیار کس کے پاس ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وزارت قانون نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر جیل ٹرائل کیلئے خط لکھا، چیئرمین پی ٹی آئی کو اس دوران اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا، خصوصی عدالت نے شاہ محمود قریشی کے بچوں کی جیل سماعت میں موجودگی کی درخواست خارج کر دی، 2 اکتوبر کو سائفر کیس کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا، اگلے روز ایک دستاویز سامنے آیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سیکیورٹی کیلئے جیل ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز سے متعلق سنگل بنچ کے فیصلے میں کیا لکھا گیا۔

مزید پڑھیں:

چیئرمین پی ٹی آئی کو بیٹوں سے فون پر بات کی اجازت مل گئی

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ سنگل بنچ کے فیصلے میں بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز سے متعلق کچھ نہیں لکھا گیا، وزارت قانون کے بعد کے نوٹیفیکیشنز بھی پہلے نوٹیفکیشن کا تسلسل ہے۔ جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل کیوں ہو رہا ہے، پراسیکیوشن کو اس کی کوئی ٹھوس وجہ بیان کرنی ہو گی۔

عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا ڈویژن بینچ وزارت قانون کے بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز کو دیکھ سکتا ہے، کیا عدالت کو آپ کو بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز چیلنج کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ انٹراکورٹ اپیل تو سنگل بنچ کی سماعت کا ہی تسلسل ہوتا ہے، اس نکتے پر عدالت کی معاونت کریں۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے مؤقف پیش کیا کہ عمران خان کے خلاف ابھی تین سرکاری گواہ عدالت کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ نہیں کئے گئے، ابھی عمران خان کے 8 وکیل جیل میں ہیں، اور ہر سماعت پر ان کو مکمل سہولت دی جاتی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اگر جنرل پبلک جیل کے ٹرائل جو دیکھنا چاہتی ہے تو کیا ان کی انٹری پر پابندی ہے، ایک جیل وزٹ کے دوران ہم نے دیکھا تھا کہ وہاں ایک ہال ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجا پہلے جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز صرف چیئرمین پی ٹی آئی سے متعلق تھے، بعد کے نوٹیفیکیشنز میں شاہ محمود قریشی کو بھی شامل کیا گیا، بعد میں جاری ہوئے نوٹیفیکیشنز میں چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر لکھا گیا، یہ عدالت بعد میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز کو بھی دیکھ سکتی ہے۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ میں نے گزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ اب وقت مختلف ہے، اس کیس میں کتنے گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ آج تین گواہ پیش کئے گئے لیکن ابھی تک بیان ریکارڈ نہیں ہو سکے، جیل میں ایک ہال ہے کرسیاں لگی ہوئی ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ کیلئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، اگر شہری جیل ٹرائل دیکھنا چاہتے ہیں تو ان پر پابندی کیوں ہے، اور اگر ملزم کی سیکیورٹی کا مسئلہ ہے تو سیکیورٹی تھریٹ کی جگہ کوئی بھی کیسے داخل ہو سکتا ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سائفر جیل ٹرائل میڈیا، فیملی یا جنرل پبلک اگر دیکھنا چاہے تو ان کو اجازت ہونی چاہیے، سب دیکھیں گے کہ اس کیس میں جرم موجود ہی نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کا متن پبلک کرنے کا الزام ہے، اور سائفر کی کاپی کو چالان کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ستر سال پہلے جو ہوتا رہا وہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے، ہمیں اب اس سب کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہئے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے وقت بدل چکا ہے۔

وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ایف ایٹ کچہری میں طلب کیا گیا تو ہم نے مقام تبدیلی کی درخواست دی، اہم سیاسی شخصیت کیلئے ایف ایٹ کچہری میں پیش ہونے پر شدید سیکیورٹی خدشات تھے، ہماری درخواست پر عدالت کا مقام تبدیل کرکے جوڈیشل کمپلکس منتقل کیا گیا، جیل ٹرائل کی محض ایک وجہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سیکیورٹی کو قرار دیا گیا۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ آج ہی دلائل دینا چاہتے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے کچھ وقت دے دیا جائے آئندہ سماعت پر دلائل دوں گا۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت چاہتی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ جلد کر دیا جائے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے استدعا کی کہ عدالت جیل ٹرائل پر حکمِ امتناعی جاری کر دے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کو سن لیں، ابھی حکم امتناعی جاری نہیں کریں گے، اٹارنی جنرل نے عدالت کی آبروریشنز اور آپ کے تحفظات سن لئے ہیں، شاید اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر کوئی بہتر تجویز لے آئیں، جس طرح سپریٹنڈنٹ جیل اچھی تجویز لے کر آ گئے تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے بینچ نے اٹارنی جنرل سے اہم مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی صاحب غیر مناسب انداز میں ٹرائل آگے نہ بڑھایا جائے۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ یں یقینی بناؤں گا کہ ملزم کے حقوق متاثر نہ ہوں۔

جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے۔ عدالت نے کیس کی سماعت اگلے منگل 14 نومبر تک ملتوی کردی۔

imran khan

Islamabad High Court

cypher case Imran Khan

IMRAN KHAN Adiyala Jail