فیئر ٹرائل ایکٹ عوامی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت دیتا ہے، حکومت کا عدالت کو جواب
وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے عدالتی سوالات پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب جمع کرا دیا ہے، جس میں کہا کہ فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت دیتا ہے، جب کہ پیکا آرڈی نینس کے تحت بھی حاصل کیے گئے ڈیٹا یا ریکارڈ کوخفیہ رکھنا لازم ہے۔
آڈیو لیکس کیس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے عدالتی سوالات پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب جمع کرا دیا ہے۔
حکومت نے اپنے جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے لیگل فریم ورک موجود ہے، فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 حساس اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا فریم ورک فراہم کرتا ہے۔
حکومت نے اپنے جواب کہا ہے کہ وزیراعظم آفس حساس اداروں کے حساس روزمرہ امور میں مداخلت نہیں کرتا، بلکہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے ساتھ کچھ فاصلے سے تعلقات رکھتا ہے۔
حکومتی جواب میں ہے کہ وزیراعظم آفس کاحساس اداروں کے کام میں جانا قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں، ایسا عمل ملک کو خطرات سے بچانے والی حساس اداروں کے مفاد میں نہیں، حساس اداروں سے آئینِ اورقانون کےمطابق کام کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت نے پوچھا کہ ٹیلی فونک گفتگو کو خفیہ رکھنے کے کیا سیف گارڈز ہیں؟۔ تو انوسٹی گیشن فار فیئرٹرائل ایکٹ 2013 گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت فراہم کرتا ہے، تاہم شہریوں کی ریکارڈ گفتگوکوخفیہ رکھنا اور لیک ہونے سے بچانایقینی بنانا ضروری ہے، پیکا آرڈی نینس کے تحت بھی حاصل کیے گئے ڈیٹا یا ریکارڈ کوخفیہ رکھنا لازم ہے۔
Comments are closed on this story.