نیب ترمیم کیس: نیب عدالتوں کو زیرسماعت مقدمات کے حتمی فیصلے سے روک دیا گیا
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے نیب عدالتوں کو زیرسماعت مقدمات کے حتمی فیصلے سے روک دیا، جب کہ اپیلوں کی نقول چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ آج پہلی سماعت کررہا ہے، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔
حکومتی وکیل کا مؤقف
کیس کی سماعت شروع ہونے سے قبل ہی وفاقی حکومت نےانٹراکورٹ اپیل کی پہلی سماعت پر کیس میں التوا مانگ لیا اور درخواست دائر کردی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا میں بیرون ملک ہیں، اور 3 نومبر تک عدالتی رخصت پر ہوں، 28 اکتوبر کو نیب اپیل کے سماعت کیلئے مقرر ہونے کا پتہ چلا، سماعت 6 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کی جائے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وکیل وفاقی حکومت نے التوا کی درخواست دائرکی ہے، عدالت اگرحکم دے تو میں دلائل کیلئے تیار ہوں۔
فاروق ایچ نائیک کے دلائل
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں اور بھی درخواستیں آئی ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل فاروق ایچ نائیک سے استفسار کیا کہ پہلے اس کیس میں آپ فریق نہیں تھے۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل نیب ملزم ہیں، انہیں فریق بنائے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا، میں نے دو نظرثانی کی درخواستیں اور ایک اپیل دائر کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل اور نظرثانی کا سکوپ الگ الگ ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نظرثانی کی درخواستیں واپس لے کر اپیل کی پیروی کرناچاہتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانونی سوال ہے جب آپ فریق نہیں تو سنا کیسے جائے۔
چیف جسٹس نے حکومتی وکیل مخدوم علی خان کے معاون وکیل سعد ہاشمی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سامنے کیوں نہیں کھڑے، اٹارنی جنرل کا شیلٹر کیوں لے رہے ہیں۔ جس پر معاون وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم کیس پر پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون لاگو ہوتا تھا، نیب ترامیم کیس میں بینچ ججز کی کمیٹی نے تشکیل نہیں دیا تھا۔
چیف جسٹس نے معاون وکیل سے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ اس نکتے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں؟، اگر یہ دلیل مان لی گئی تو نیب ترامیم کیخلاف درخواستیں زیر التواء تصور ہوں گی، زیر التواء درخواست پر از سر نو پانچ رکنی لارجر بینچ فیصلہ کرے گا۔
معاون وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون والا نکتہ پہلے بھی اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو اس نکتے پر تکنیکی مسئلے کا بھی سامنا ہے، ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، معلوم نہیں نمٹائے گئے مقدمات کے حوالے سے تفصیلی فیصلے میں کیا لکھا ہوگا، کیا مناسب نہیں ہوگا پہلے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک سوال یہ ہے فیصلے سے وفاقی حکومت کیسے متاثرہ فریق ہے، قانون سازوں نے اپیل کا حق صرف متاثرہ شخص کو دیا ہے، اس عدالت نے بھی متاثرہ شخص کی فیصلوں میں تشریح کررکھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکڑوں لوگوں میں سے صرف فاروق ایچ نائیک کے مؤکل متاثرہ فریق ہیں، اس کیس کی پہلے بہت سماعتیں ہوئیں، ہم ایک2 سماعتوں میں اس نقطے پر فیصلہ کر دیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترامیم کو سیاستدانوں کی حدتک ختم اور بیورو کریٹس کی حد تک برقراررکھا گیا، عدالت نے پارلیمان کا بنایا گیا قانون کالعدم قراردیا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکم امتناع دے دیں تو پھر احتساب عدالتوں میں مقدمات رک جائیں گے، میری ذاتی رائے ہے کہ کوئی بھی قانون معطل نہیں ہوسکتا، جب نیب ترامیم کا کیس چل رہا تھا تو پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون لاگو تھا۔
سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد نیب، اسلام آباد اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیا، جب کہ درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ نے نیب عدالتوں کو زیرسماعت مقدمات کے حتمی فیصلے سے روک دیا اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔ مزید سماعت پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہوگی۔
عدالتی حکمنامے میں اپیلوں کی نقول چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فاروق ایچ نائیک کے موکل کی اپیل اب دائر ہو چکی ہے، فاروق ایچ نائیک کی فریق بننےکی سابقہ درخواست خارج کی جاتی ہے۔
عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا، آئندہ سماعت تک احتساب عدالتیں حتمی فیصلہ نہ سنائیں۔
نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا تھا
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا، اور فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے انٹراکورٹ اپیل دائرکی گئی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے مقدمے کے وکلا کو نوٹسز جاری کیے تھے، اور آج اس اپیل پر پہلی سماعت تھی۔
Comments are closed on this story.