مصری صدر غزہ کی حمایت میں سیاسی ریلیاں اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے لگے، مخالفین
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی پرفلسطین کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلیوں کے پس پردہ اپنے مفادات حاصل کرنے کا الزام عائد کردیا گیا۔
دارالحکومت قاہرہ میں فلسطینی اور مصری پرچم لہراتی بسوں سے نکلتے نوجوانوں کے ہاتھ میں صدر عبدالفتاح السیسی کے جھنڈے اور تصاویردیکھی گئیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ السیسی کی انتظامی فلسطینیوں کیلئے عوامی ہمدردی کے اظہار کے ساےھ اپنی حکومت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایسے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کررہی ہے۔
بس پر السیسی کی ’دی نیشنز فیوچر پارٹی‘ کے لوگو کے ساتھ منتظمین سے (جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ خفیہ پولیس افسر ہیں) احتجاج کے شرکا کو ہدایت دیتے ہیں کہ کہاں جانا ہے اور کیا نعرہ لگانا ہے۔
مظاہرین نے نعرے لگائے کہ، ’ہم تمہارے ساتھ ہیں! گو سیسی!‘ ،ان کے ہاتھوں میں اٹھائے پلے کارڈز پرعربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں پیغام درج تھا کہ،ہم فلسطینی کاز کی حمایت کرتے ہیں، اور ہم صدر کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں۔
یہ مظاہرہ نامعلوم فوجی میموریل کی طرف گیا جو 1973 کی اکتوبر جنگ میں اپنی جانیں گنوانے والے مصریوں اورعربوں کے اعزازمیں ایک پیرامڈ یادگار ہے۔منظرکو دستاویزی شکل دینے کیلئے منظور شدہ میڈیا کے لیے مائکروفون اور اسٹیج کے علاوہ ساتھ ہی سروں پر پرواز کرتے ڈرونز بھی تھے۔
ریلی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد فلسطین کے حامی ایک حامی نے الجزیرہ کو بتایا کہ، ’یہ ایک مزاحیہ شو تھا‘۔ وہاں موجود زیادہ تر لوگوں کو ملازمت پر رکھا گیا تھا یا انہیں آنے کے لیے پیسے دیے گئے تھے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہر کے مرکز میں بسیں اجتماع کے مقام تک مفت میں سواری دینے کے لیے تیار تھیں۔
جرمنی میں مقیم مصری صحافی اور اسکالر اور کارکن حسام الحمالوی نے کہا کہ، ’مختلف وزارتوں کی طرف سے ان تحریکوں میں سڑکوں پر نکلنے کی ہدایات دی گئی تھیں، ساتھ ہی ساتھ ریاست کی حمایت یافتہ ٹریڈ یونین فیڈریشنوں نے بھی اپنے کارکنوں کو متحرک کیا تھا‘۔
فلسطین کے حامی ایک اور مظاہرین نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ریاست کی جانب سے منظم احتجاج سادہ الفاظ میں اسٹریٹجک طریقے ہیں جن کے ذریعے ریاست مصری معاشرے کی سیاسی آزادی اور اظہار رائے سے محرومی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو متاثر کرتی ہے اور ریاستی پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتی ہے۔
دونوں فلسطینی حامیوں نے کہا کہ وہ اس کے بجائے مصطفیٰ محمود اسکوائر جائیں گے، جہاں نچلی سطح پر اجتماع ہونے والا ہے۔تاہم، پولیس نے مبینہ طور پر چوک میں اجتماع کو تحلیل کر دیا۔مظاہرین نے بالآخر مصر کی احتجاجی تحریکوں کی تاریخ میں ایک علامتی مقام تحریر اسکوائر کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیاتاہم جیسے ہی لوگ چوک کے آس پاس کی گلیوں میں پہنچنا شروع ہوئے مسلح افواج نے ایک بڑے اجتماع کو جمع ہونے سے روکنا شروع کردیا۔
تاہم چوک کی طرف بھاگنے والے بڑا گروہ پولیس لائن پر قابو پانے میں کامیاب رہا اور ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا جس میں شرکا نے نعرے لگائے، ’عوام اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں‘۔
حکومت کے زیر اہتمام مظاہرے میں جانے سے انکار کرنے والے مظاہرین میں سے ایک نے کہا کہ ’2013 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب ہم احتجاج کے طور پر تحریر میں داخل ہوئے۔ لیکن چوک میں ان کی موجودگی زیادہ دیر تک نہیں چلے گی‘۔
الجزیرہ سے بات کرنے والے دوسرے فلسطینی حامی نے کہا، “کچھ ہی دیر بعد جب لوگ بہادری کے ساتھ احتجاج کرنے کے لیے تحریر میں کھڑے ہوئے، پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے سویلین کپڑوں میں ملبوس اور ٹھگوں نے مظاہرین کو نکالنے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال شروع کر دیا۔ انہوں نے مظاہرین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور چوک سے باہر ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔
مصر کے آزاد خبر رساں ادارے مدا مصر کے مطابق 43 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
السیسی حکومت پر طویل عرصے سے منظم سیاسی جبر اور سنسرشپ کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، جس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے گروپ بھی شامل ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے مصری فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’من مانی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور حقیقی یا مشتبہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔‘
آزادی کی اس کمی سے بہت سے مصری ناراض ہیں جو انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے کی امید رکھتے ہیں۔انہیں ڈر ہے کہ احتجاج کا واحد محفوظ راستہ مصری حکام کی واضح کمان میں ہے۔
فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والے دوسرے مظاہرین نے کہا کہ وہ بنیادی طور پر ہمارے غصے، مایوسی اور سیاسی آزادی کی کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنے حق میں مظاہرہ کرنے پر قائل کرنے، جوڑ توڑ کرنے اور رشوت دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
غزہ جو اسرائیل کی مسلسل بمباری کا مقام ہے، مصر کے ساتھ سرحد کا اشتراک کرتا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ ہم کب تک کھڑے رہیں گے اور دیکھیں گے کہ غزہ کے لوگ، جو ہم سے صرف چند گھنٹے کی دوری پر ہیں، ظالم اور سفاک قابض افواج کی طرف سے نافذ ظالمانہ اور غیر انسانی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟۔
Comments are closed on this story.