نیوکلئیر دھماکے کے نیچے کھڑے ہونے والے 6 فوجیوں کے ساتھ کیا ہوا ؟
انسانوں پر جوہری ہتھیاروں کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے امریکا نے ماضی میں ایک غیر معمولی جرات مندانہ تجربہ کیا، تاہم نیوکلئیر دھماکے کے نیچے کھڑے ہونے والے 6 فوجیوں کے ساتھ کیا ہوا یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے۔
جب ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم گرائے گئے تو دنیا نے ایٹمی دور کے آغاز کا مشاہدہ کیا۔
اس کے بعد سے وسیع پیمانے پر تحقیق اور ترقی کی کوششیں ان زبردست صلاحیتوں کو آگے بڑھانے کے لئے وقف کی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انسانوں پر جوہری ہتھیاروں کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے امریکا نے ایک غیر معمولی جرات مندانہ تجربہ کیا تھا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں این پی آر کے حوالے سے کہا گیا کہ 19 جولائی 1957 کو لاس ویگاس سے تقریباً 65 میل شمال مغرب میں زمین کے ایک ٹکڑے پر امریکی فضائیہ کے پانچ افسران اور ایک فوٹوگرافر ایک ساتھ کھڑے ہوئے۔
ان کے قریب ہاتھ سے لکھے ’گراؤنڈ زیرو، پاپولیشن 5‘ کا نشانقریب نرم زمین پر لگا ہوا تھا۔
اس وقت کی ایک ویڈیو میں دو ایف 89 طیارے گرجتے نظر آتے ہیں اور ان میں سے ایک جوہری وار ہیڈ لے جانے والا جوہری میزائل شوٹ کرتا ہے۔
یوٹیوب ڈاکو منٹری ویڈیو میں نیچے کھڑے سپاہیوں کو انتظار کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک الٹی گنتی کے بعد سپاہیوں سے 18,500 فٹ کی بلندی پر میزائل پھٹ جاتا ہے۔
یہ لوگ جان بوجھ کر 2 کلوٹن کے ایٹمی بم کے نیچے براہ راست کھڑے تھے۔
سمتھسونین میگزین کے مطابق ، ’وہ پانچ افراد کرنل سڈنی بروس ، لیفٹیننٹ کرنل فرینک پی بال ، میجر نارمن ”بوڈی“ بوڈنگر ، میجر جان ہیوز ، ڈان لوٹریل اور جارج یوشیتاکے تھے۔
وائس نیوز کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ، سوویت یونین (یو ایس ایس آر) اور امریکا نے دو ہزار سے زائد ایٹم بم دھماکے کیے۔
برطانیہ میں بیس ہزار فوجیوں نے اپنی ہی حکومت کی جانب سے کیے گئے ایٹمی دھماکوں کا مشاہدہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق ایٹمی دھماکوں کا مشاہدہ کرنے والے صرف چند ہی آج بھی زندہ ہیں، اور مشروم کے بادل کی جوہری چمک جو انہوں نے دیکھی وہ اب بھی انہیں پریشان کرتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پانچ جوہری دھماکوں کا تجربہ کرنے والے برطانوی فوجی ڈگلس ہرن نے مدر بورڈ کو بتایا کہ ’جوہری دھماکے میری زندگی کا فیصلہ کن نقطہ تھے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جب دھماکے کا فلیش پڑا تو چمک ایسی تھی کہ آپ اپنی بند آنکھوں سے اپنے ہاتھوں کا ایکس رے دیکھ سکتے تھے‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پھر گرمی ٹکرائی اور یہ ایسا احساس تھا جیسے کوئی میرے سائز کا آگ میں لپٹا انسان مجھ میں سے گزر گیا ہو۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جو نیا تھا، یہ بہت عجیب تھا، وہاں زخموں اور ٹوٹی ٹانگوں والے لڑکے تھے۔ ہم یقین نہیں کر سکتے تھے۔ یہ کہنا کہ یہ خوفناک تھا ایک معمولی بات ہے۔ اس سب نے ہمیں ایسا چونکا دیا تھا کہ ہم بس خاموش ہو گئے تھے‘۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا نے جوہری توانائی میں بہت ترقی کی ہے۔
یہ سب دوسری جنگ عظیم کے ساتھ شروع ہوا، اور اس کے بعد سے، دنیا نے بہت سے سنگ میل عبور کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کو زیادہ طاقتور بنا دیا ہے۔
Comments are closed on this story.