خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس سماعت کیلئے مقرر، نیا بینچ تشکیل دے دیا گیا
سپریم کورٹ نے خصوصی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا، کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دے دیا گیا۔ رجسٹرار آفس نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے ہیں۔
مقدمہ کی سماعت 23 اکتوبر کو جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کرے گا جس کے دیگر ارکان میں جسٹس منیب اختر،جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
اس کیس کی گزشتہ سماعت 3 اگست کو ہوئی تھی جس سے قبل 21 جولائی کو سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے oدایات جاری کی تھیں کہ کسی بھی ملزم کا ٹرائل سپریم کورٹ کو آگاہ کiے بغیرشروع نہ کیا جائے, خلاف ورزی کی صورت مٰن ذمہ داروں کو طلب کرتے ہوئے کارروائی عمل میں لانے کا کہا گیا تھا۔
3 اگست کی سماعت
سپریم کورٹ نے 3 اگست کو ہونے والی اب تک کی آخری سماعت کا 2 صفحات پر مشتمل حکم نامہ 4 اگست کو جاری کیا تھا۔ جس کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ متعلقہ حکام کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اپیل کا حق دینے کیلئے سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ عدالتیحکم کے بغیرکسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو گا۔
حکمنامے کے مطابق اٹارنی جنرل کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع کرنے سے پہلے عدالت کو آگاہ کریں گے، عدالت فریقین کو سننے کے بعد مناسب حکم جاری کرے گی اور کیس کی آئندہ سماعت بینچ کی دستیابی پرمقررکی جائے گی۔
اس سے قبل 21 جولائی کو ہونے والی سماعت کے تحریری حکمنامہ میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل نے اپیل کاحق دینے کے معاملے پروقت مانگا ہے جو دیا جاتا ہے،وہ اپنے دلائل میں عدالت کو یقین دہانیاں کروائیں۔ کیس کے میرٹس پران کے دلائل جاری ہیں۔
حکمنامے میں کہا گیا کہاٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ تاحال کسی زیرحراست شہری پرسزائے موت یا عمر قید کی دفعہ نہیں لگائی۔کسی زیر حراست شہری کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا، نیزعدالت کو پیشگی بتائے بغیرملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔
مزید کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایاکہ دوران سماعت ملزمان کے اہلخانہ اور لیگل ٹیم موجود ہوگی، فوجی عدالت میں عام کورٹس کی طرح قانون کے مطابق شواہد ریکارڈ کیے جائیں گے۔ملٹری کورٹس کے فیصلے میں تفصیلی وجوہات بھی دی جائیں گی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ترمیمی) بل کیا ہے؟
بل میں حساس اداروں، مخبروں اور ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
بل کے سیکشن 6 اے (غیر مجاز طور پر شناخت ظاہر کرنا) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے امن و امان، تحفظ، مفاد اور دفاع کے خلاف انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنا جرم تصور ہو گا۔
کون ملک کادشمن تصور کیا جائے گا؟
بل کے سیکشن 8 اے میں ”دشمن“ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’کوئی بھی وہ شخص جو بلواسطہ یا بلا واسطہ، جانے یا انجانے میں بیرونی قوت، ایجنٹ، نان اسٹیٹ ایکٹر، ادارے، ایسوسی ایشن یا گروپ جس کا مقصد پاکستان کے مفاد اور تحفظ کو نقصان پہنچانا ہو، اس کے ساتھ کام کرتا ہو‘۔
سیکشن 9 کے مطابق جرم پر اُکسانے، سازش یا معاونت کرنے والوں کو جرم میں شریک سمجھ کر وہی سزا دی جائے گی۔
متنازع قرار دی گئی شق
تاہم آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں ایک شق کو مبصرین نے زیادہ متنازع قرار دیا ہے۔
سرچ وارنٹ سے متعلق شق میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس ادارے کسی جرم یا جرم کے شبے میں ’ضرورت پڑنے پر بغیر وارنٹ طاقت کے زور پر کسی بھی وقت کسی شخص یا جگہ کی تلاشی لے سکتے ہیں۔‘
ایف آئی اے کے اختیارات
ترمیمی بل میں یہ بھی کہا گیا کہ تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے گریڈ 17 یا اوپر کے افسر کو ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔
ڈی جے ایف آئی اے کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایف آئی اے اور حساس اداروں کے افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنا سکتے ہیں، مگر ایف آئی اے کو 30 روز میں تحقیقات مکمل کرنا ہوں گی۔
شواہد اور سامان کی ضبطگی
ترمیمی بل کے مطابق انٹیلی جنس ادارے (آئی بی اور آئی ایس آئی) شک کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے دستاویزات، نقشے، ماڈل، آرٹیکل، نوٹ، ہتھیار یا الیکٹرانک آلات ضبط کرنے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے مجاز ہوں گے۔
بل کے مطابق ایسی الیکٹرانک ڈیوائسز، ڈیٹا، معلومات، دستاویزات یا دیگر مواد جو تحقیقات کے دوران حاصل کیے گئے اور ان سے جرم کے ارتکاب میں سہولت کاری کی گئی، انہیں بطور شواہد پیش کیا جاسکے گا۔
حساس علاقوں تک رسائی
سیکشن 3 کا نام ”جاسوسی کی سزا“ سے بدل کر ”جرائم“ رکھا جا رہا ہے۔
موجودہ جرائم میں معمولی ترامیم کے ساتھ اس نے ممنوعہ علاقوں کی ڈرون کیمروں کے ذریعے تصویر کشی کو بھی جرم کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں درج ہے کہ ممنوع علاقوں کی جانب پیشرفت، داخلہ یا حملے کی منصوبہ بندی کرنا جرم تصور ہوگا، اور ”ان مینڈ وہیکل“ یا ڈرون کی مدد سے ممنوع علاقوں کا جائزہ لینے پر پابندی ہوگی۔
اس کے تحت افواج کی صلاحیت سے جڑی کسی سرگرمی، دستاویزات، ایجاد یا ہتھیار وغیرہ تک غیر مجاز رسائی غیر قانونی ہوگی۔
اس ایکٹ میں ترمیم کے طور پر ان علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو عارضی طور پر جنگی آزمائش، تربیت، ریسرچ، دستوں کی نقل و حرکت یا ان کیمرا اجلاس کے لیے مسلح افواج کے زیرِ کنٹرول ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ترمیمی) بل 2023 فی الحال یہ جرم صرف جنگ کے دوران اس طرح کی نقل و حرکت تک محدود ہے، تاہم مجوزہ بل میں امن کے دنوں میں بھی یہ لاگو ہو سکے گا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بِل کی مخالفت کیوں؟
بی بی سی کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنان اور وکلاء نے اس آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت کی ہے اور اسے اسے ماورائے آئین قرار دیا ہے۔
ماضی میں پاکستانی فوج کی لیگل برانچ (جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ) سے منسلک رہے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس ترمیمی بل کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آئین میں واضح طور پر لکھا ہے اگر کسی کو گرفتار کرنا ہے، یا کسی گھر کی تلاشی لینی ہے، اس کے لیے سرچ وارنٹ ہونا ضروری ہے۔‘
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اُن اراکینِ پارلیمانٹ پر بھی تنقید کی جنہوں نے اس بل کو پڑھے بغیر منظور کیا۔
دوسری جانب سماجی کارکن ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم کا مقصد انٹیلی جنس اداروں کو مزید اختیارات دینا ہے۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان ترامیم کے تحت آئی ایس آئی اور آئی بی کو وسیع پیمانے پر اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ ’کسی کو بھی شک کی بنیاد پر روک لیں، تلاشی لے لیں‘ جس کا مقصد اختلاف رائے کو دبانا ہے۔
مزید پڑھیے
خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست اعتراضات کے ساتھ واپس
’تنقید کی پرواہ نہیں‘، خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف فل کورٹ کی درخواست مسترد
خصوصی عدالتوں کیخلاف فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
ان کا کہنا تھا کہ ’خوفناک بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی انٹیلی جنس افسر کی شناخت ظاہر کریں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ آپ کا تعاقب کر رہے ہیں جیسے بلوچ طلباء کے کیس میں ہوتا ہے، تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔‘
ایمان مزاری کے مطابق یہ ترامیم محض سیاست دانوں کو ہی نہیں بلکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کے لیے بھی خطرناک ہوسکتی ہیں۔یہ خفیہ اداروں کی کارروائیوں بشمول جبری گمشدگیوں اور گھروں پر چھاپوں کو ”لیگل کوور“ دینے کے مترادف ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بی بی سے بات کرتے ہوئے ایک ہی روز میں سینیٹ سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی منظوری کا ارادہ پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی قرار دی اور کہا کہ یہ اسٹریٹیجک قانون ہے جس پر ’ہمہ پہلو طویل سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔‘
سینیٹر مشتاق نے کہا کہ اس بل کی موجودہ حالت میں منظوری سے ’پورا ملک ایک چھاؤنی اور ایک کھلا قید خانہ بن جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسیوں کو گرفتاریوں، تلاشیوں، ضبط کرنے کے غیر معمولی اختیارات مل جائیں گے۔ دستور کے آرٹیکل نو کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے انسانی حقوق، انسانی آزادی اور میڈیا کی آزادی کے اوپر اثرات پڑ سکتے۔‘
سپریم کورٹ نے 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس بھی سماعت کےلیے مقررکردیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کرے گا، بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ بار اور پی ٹی آئی سمیت دیگر نےدرخواستیں دائر کررکھی ہیں۔
Comments are closed on this story.