Aaj News

اتوار, نومبر 17, 2024  
15 Jumada Al-Awwal 1446  

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ: چیف جسٹس نے جسٹس منیب اور جسٹس اعجاز کو ٹوک دیا

ایم کیو ایم نے بھی قانون کی حمایت کردی، درخواستیں واپس، سماعت جمعرات تک ملتوی
اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2023 08:32pm

سپریم کورٹ پریکٹیس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کے دوران ایم کیوایم پاکستان نے درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے ایکٹ کی حمایت کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کی، دوران سماعت باربار سوال کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کو ٹوک دیا اور کہا کہ اپنے سوال روک کر رکھیں۔

ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل

ایم کیو ایم کے فیصل صدیقی نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں فریق نہیں ہوں، عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا ہوں، عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دوں گا۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ایک کاکڑ کیس کا حوالہ دوں گا، اور دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے فیصلے کا حوالہ دوں گا، ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں، سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہوتا تو آئین سازوں نے لکھا ہوتا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے کہا کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں، آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں۔

چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس پر وکیل فیصل صدیقی ہنسے تو چیف جسٹس نے وکیل کے مسکرانے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں، 4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں، کئی کیسز التوا کا شکار ہیں، ساتھی ججز سے درخواست ہے کہ اپنے سوالات روک کر رکھیں، کوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو وکیل کی دلیل پوری تو ہونے دیں۔

ایم کیو ایم کے وکیل نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کر دی، اور ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایکٹ کیخلاف درخواستیں میرٹ پر خارج کی جائیں۔

دوران سماعت بار بار سوال پوچھنے پر چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو ٹوک دیا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں بھی اس عدالت کا ایک جج ہو، سوال پوچھنا ایک جج کا حق ہے۔

چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے سوال ضرور پوچھے لیکن دلاٸل مکمل ہونے کے بعد۔

چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے وکیل سے سوال کیا کہ صرف یہ بتادیں کہ آرٹیکل191 میں لاء کا کیا مطلب ہے۔

دوبارہ سوال پوچھنے پر چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ذہن بنا لیا تو فیصلے میں لکھ لیجیےگا، وکیل کو جیسے مرضی دلائل دینا ہوں گے دے گا۔

جسٹس منیب نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور جواب دیں۔

سپریم کورٹ کا فل کورٹ کیس کی سماعت کرتے ہوئے
سپریم کورٹ کا فل کورٹ کیس کی سماعت کرتے ہوئے

چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو دلاٸل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر دلاٸل نہیں دینا چاہتے تو بیٹھ جاٸیں۔ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ سبجیکٹ ٹو اور لاء کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ایک بار پھر وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آئین نے یہ کیوں کہا عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں، ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، ایکٹ سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت ہے یا نہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے، پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرنے والی قانون سازی نہیں کرسکتی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پرعائد آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتاوں گا، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپروائزکرنے کا مطلب توسپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لیجسلیٹیواینٹریز پارلیمنٹ کو سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ اہم سوال ہے جس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں، آرٹیکل191کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 سے ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کو اختیار تھا، سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ رجسٹرار آفس کے آرڈر کے خلاف اپیل بھی ہوتی ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ ایڈمنسٹریٹو آرڈر اور ایڈمنسٹریٹو اپیل ہوتی ہے۔ جسٹس منصورشاہ نے کہا کہ بھلے ایڈمنسٹریٹواپیل ہو، ہمیں اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے۔

وکیل فیصل صدیقی کے دلائل دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں آپ کی فزیکل موومنٹ کو انجوائے کر رہا ہوں۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ واحد ورزش ہے جو میں کر سکتا ہوں۔

سماعت کے دوران وقفہ کردیا گیا، اور وقفے کے بعد ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلاٸل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، رول بنانے کو قانون سے مشروط کیا گیا ہے، جسٹس منیب نے آئینی تاریخ کی بات کی، اس تناظر میں بات کروں گا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ضروریات تھیں جس بنیاد پر پارلیمنٹ نے ایکٹ بنایا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اپیل کا حق آئینی ترمیم سے ہی دیا جا سکتا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ اپیل غیر آئینی ہے تو لا ریفارمز میں اپیل بھی غیر آئینی ہے۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ وہ والا معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے، 2 غلط مل کر ایک درست نہیں بنا دیتے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سوال اٹھایا کہ اٹارنی جنرل سے پارلیمنٹری ریکارڈ منگوایا گیا تھا۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ریکارڈ کے معاملے پر جواب اٹارنی جنرل ہی دے سکتے ہیں، دیکھنا ہو گا آئین میں اپیل کا حق دینے پر پابندی ہے یا نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آئین میں400 مرتبہ لاء کا لفظ استعمال ہوا ہے، آئینی تشریح کیلئے کسی نا کسی پرنسپل پر انحصار کرنا ہوتا ہے، آپ کون سے پرنسپل پر انحصار کر رہے ہیں۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ عدالت کو دیکھنا چاہئے سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل ہو سکتی ہے یا نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپیل تو آئین میں پہلے بھی دی گئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں پارلیمنٹ کو براہ راست اختیار کہاں دیا گیاہے۔

ججز کی جانب سے پے در پے سوالات اور ریمارکس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک وقت پر ایک شخص بات کرے۔

جسٹس مسرت ہلالی کے ازخود نوٹس اختیار سے متعلق اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل191 کی لینگویج سبجیکٹ ٹو لا سے شروع ہوتی ہے، کیا ان الفاظ سے پروسیجر میں بہتری کی گنجائش چھوڑی گئی، آرٹیکل 184/3جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔

چیف جسٹس نے ایک بار پھر جسٹس منیب اختر کو سوالات پر ٹوک دیا اور کہا کہ پہلے میرےسوال کا جواب دیا جائے بعد میں دوسرے سوال پر آئیں، میں نہیں چاہتا میرے سوال کے ساتھ کچھ اور آئے، میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل191 کے تحت ہم رولز بنا سکتے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ 191 کے تحت فل کورٹ میٹنگ کون بلائے گا۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فل کورٹ کی میٹنگ چیف جسٹس بلائے گا۔

جسٹس شاہد وحید پھر استفسار کیا کہ کیا دوسرے ججز میٹنگ بلا کر رولز بنا سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایسی صورتحال ہےاس لئے سوال پوچھ رہے ہیں، فل کورٹ بلانے کا رولز میں تو کوئی ذکر نہیں۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ لائٹر نوٹ کے طور پر پوچھ رہا ہوں، آپ کو کتنی فیس ملی۔ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا جواب دے کر میں خود کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔

جسٹس مظاہراکبر نے وکیل سے سوال کیا کہ کوئی ایسی ٹیم دیکھی جس کے3 کپتان ہوں وہ جیتی بھی ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کپتان کے وائس کپتان ضرور ہوتے ہیں، آپ کے مطابق پارلیمان کے پاس اختیار ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بالکل میرے نزدیک پارلیمان کا اختیار ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل سے دوبارہ سوال کیا کہ کیا پارلیمان کہہ سکتی ہے کہ کمیٹی میں3 نہیں 5 ججزہوں۔ چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ چلیں آپ دلائل آگے بڑھائیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ممکن ہے کوئی میرے سوال سے اتفاق نہ کرے، کسی کو اپیل کا حق ملے گا کسی کو نہیں ملے گا، اپیل کا حق ملنے سےدوبارہ قوانین بنیں گے، پارلیمان نے کہا ہے اپیل ہونی چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ ہر حکم کی اپیل ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر لارجر بینچ ہے تو اپیل نہیں ہو گی۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اگر سنگل جج کیس سنے تو اپیل ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس فل کورٹ سے پہلے کونسی فل کورٹ تھی۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ شاید 2015 میں فل کورٹ تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مستقبل میں جب بات آئے گی تو ہم بھی سمجھیں گے، ہو سکتا ہے کبھی فل کورٹ نہ بیٹھے، 21 آئینی ترمیم کے بعد کبھی فل کورٹ نہیں بیٹھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ان ترمیم سے پہلے سوچ بچار کی گئی تھی۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ فل کورٹ میں بیٹھیں گے تو کوئی اپیل کا حق نہیں ہو گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرے خیال میں فل کورٹ میں شاید اپیل کا حق نہیں مانگا جائےگا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اپیل کےبارے میں کہاگیاکہ لارجر بینچ اپیل سنے گا، لارجر بینچ کی تعداد نہیں بتائی گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اپیل کے حق کو محفوظ کرنے کیلئے آپ فل کورٹ نہیں بناسکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مفروضوں پر بات کر رہے ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 184(3) کے ایک فیصد سے بھی کم مقدمات ہوتے ہیں۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ 184(3) آئینی شق ہے۔

ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلاٸل مکمل کئے تو عدالت نے حکم دیا کہ فیصل صدیقی نے دلائل بھی دیے اور تحریری معروضات بھی جمع کروائے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے تحریری معروضات جمع کروائے، جب کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں دلاٸل کیلٸے ایک گھنٹہ درکار ہوگا۔ جس کے لئے سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے دوبارہ ہوگی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اب تک 3 اور لارجربنچ اس کیس کی 5 سماعتیں کرچکا ہے، تاہم آج پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

ن اور ق لیگ کے وکلا کے پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کے حق میں دلائل مکمل ہوچکے ہیں، اور آج اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل سمیت دیگر وکلا دلائل دیں گے۔

Supreme Court

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)