’فلسطینی خاندان ایک کمرے میں سوتے ہیں کہ حملہ ہو تو سب ساتھ مریں‘
فلسطینی فلمساز رویدہ عامر نے غزہ میں حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف اچانک حملے کے بعد کی زندگی کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فلسطینی خاندان ایک کمرے میں سوتے ہیں کہ حملہ ہو تو سب ساتھ مریں‘۔
عرب خبر رساں ادارے کیلئے لکھے گئے آرٹیکل میں انہوں نے بتایا کہ جب میں چھوٹی تھی تو لوگوں کو مرتے دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ مرد چیختے ”شہداء!“ اور ان ماؤں کو تسلی دیتے جن سے ان کے بچے بے دردی سے چھین لیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ دس سال بعد مجھے ہائی اسکول چھوڑنا پڑا کیونکہ ہمیں 2008 میں اسرائیلی فوج کے زمینی حملے سے بھاگتے ہوئے بے گھر ہونا پڑا۔
رویدہ کے مطابق راتیں سب سے مشکل تھیں، یہ وہ وقت ہے جب آپ نہ سو سکتے ہیں اور نہ جاگ سکتے ہیں، ڈر میں خبریں پڑھنا اور کچھ سننے کا انتظار کرنا۔
انہوں نے کہا کہ پوری فیملیاں ایک کمرے میں رہتی ہیں، تاکہ ایک ساتھ زندہ رہ سکیں اور مریں بھی تو ایک ساتھ۔
مزید پڑھیں
حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے فوری تبادلے کیلئے قطر میدان میں آگیا
غزہ کی مکمل ناکہ بندی، بمباری سے فلسطینی قید میں 4 اسرائیلی ہلاک
ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ہمیں احساس ہوا ہے کہ اگلا حملہ ہونے والا ہے، لوگ سامان خریدنے کے لیے باہر نکل آئے، لیکن کسی دکان کے پاس اتنا ذخیرہ نہیں تھا کہ وہ طلب کو پورا کر سکے۔ بجلی، انٹرنیٹ اور پانی تقریباً مکمل طور پر منقطع ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہر وقت دعا کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے زیادہ سے زیادہ گھروں کو نشانہ بنائے جانے کے باعث ہم میں سے کب کسی کی موت واقع ہو جائے۔ آج صبح، میں میزائل سے نکلی کسی چیز سے دم گھٹنے کی وجہ سے اٹھی۔ میزائلوں میں آگ لگانے والے سفید فاسفورس کے استعمال کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب کو اس حملے کے دوران خاص طور پر رات کے وقت تسلی کی ضرورت ہے۔ ہم رات سے نفرت کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ رات ہے بلکہ اس کے لیے جو اسرائیل طویل، تاریک اوقات میں ہمارے ساتھ کرتا ہے۔
Comments are closed on this story.