Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

حکومت کا نیب ترامیم فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ

آٸندہ ہفتے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کٸے جانے کا امکان
شائع 05 اکتوبر 2023 01:43pm

وفاقی حکومت نے نیب ترامیم فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست داٸر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وزارت قانون نے درخواست کے مسودے کی تیاری شروع کردی ہے۔

حکومت نے نیب ترامیم فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست داٸر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اور ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے آٸندہ ہفتے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست داٸر کٸے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزارت قانون نے نظرثانی درخواست کے مسودے کی تیاری شروع کردی ہے، درخواست میں نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

نیب ترامیم کیس کا تحریری فیصلہ

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، 58 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے 2 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا جو تحریری فیصلے میں شامل ہے۔

تحریری فیصلے میں نیب سیکشن 3 اور سیکشن 4 سے متعلق ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، فیصلے میں کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف کے حوالے سے کی گئی ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی، جب کہ سروس آف پاکستان کے خلاف دائر ریفرنسز کیلئے سیکشن 9 اے فائیو میں کی گئی ترمیم برقرار رہے گی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں رہنا یا نہ رہنا سیاسی فیصلہ ہے، عدالت سیاسی جماعتوں کے سیاسی فیصلوں کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ نیب ترامیم آرٹیکل 9 ، 14 ، 24 اور 25 متصادم ہیں، پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا، این آر او کیس میں بھی عدالت کا موقف تھا کہ کیسز عدلیہ ہی ختم کر سکتی ہے، درخواست اس بنیاد پر مسترد کرنا غیر مناسب ہے کہ ترامیم کی پارلیمنٹ میں مخالفت نہیں کی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پلی بارگین میں عدالتی اختیار کو ختم کرنا عدلیہ کی آزادی اور آئین کے آرٹیکل 175/3 کے بر خلاف ہے، نیب قانون میں مجرم اور پلی بارگین کرنے والے عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دیے گئے ہیں، پلی بارگین کے ملزمان کو رعایت دینا خود نیب قانون کی سیکشن 15 کیخلاف ہے۔

فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ کی جانب سے نیب قانون سے خامیاں دور کرنے کی کوشش قابل ستائش ہے، بیوروکریسی کو غیر ضروری حراساں کرنے سے روکنے کی حد تک ترامیم اچھی کاوش ہے، لیکن ترامیم سے عوامی نمائندوں کو احتساب سے استثنی بھی دیا گیا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب قانون میں کرپشن کی حد 50 کروڑ تک کرنا عوامی نمائندوں کو معافی دینے کے مترادف ہے، معافی کا اختیار صرف عدالت یا سزا کے بعد صدر مملکت کو ہے، پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کی کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا، اور 598 ریفرنسز میں سے صرف 54 ریفرنسز دیگر عدالتوں کومنتقل ہوئے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کے بیشتر ملزمان کے اثاثے بیرون ملک موجود ہیں، آمدن سے زائد اثاثوں پر حساب نہ ہو تو عوام کا کرپشن کی نذر ہونے والا پیسہ ریکور نہیں ہوسکے گا۔

کون سی ترامیم کالعدم قرار دی گئیں

سپریم کورٹ نے ختم کیے گئے تمام نیب مقدمات بحال کرتے ہوئے 10 میں سے ایک کے علاوہ تمام ترمیم کو کالعدم قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی متعدد شقوں کوآئین کے برعکس قراردیا عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کو بھی کالعدم قراردیا۔

بے نامی کی تعریف ،آمدن سے زائد اثاثوں کی تعریف ،بارثبوت استغاثہ پرمنتقل کرنے اورپلی بارگین کے حوالے سے ترمیم کالعدم قرار دے دی گئیں۔

آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقراررہیں گی۔

کس کس کیخلاف نیب ریفرنسز بحال ہوں گے

اس فیصلے کے بعد شہباز شریف، نوازشریف، یوسف رضا گیلانی اورآصف زرداری کیخلاف توشہ خانہ ریفرنس بحال ہوجائے گا۔

آصف زرداری کیخلاف مشکوک ٹرانزیکشن ریفرنس، پارک لین ریفرنس بھی بحال ہوگا۔

مزید پڑھیں: نیب آرڈیننس میں کون کون سی ترامیم کی گئی تھیں؟

لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کیخلاف ایل این جی ریفرنس جبکہ سابق وزیزخزانہ شوکت ترین کے خلاف پاور پلانٹ ریفرنس بھی بحال ہوجائے گا۔

راجہ پرویز اشرف اور مراد علی شاہ کیخلاف مقدمات بھی بحال ہوجائیں گے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے یہ فیصلہ 5 ستمبرکو محفوظ کیا تھا۔ بینچ کے دیگر دو اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن اورجسٹس منصورعلی شاہ شامل ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد کہنا تھا کہ جلد اس کیس کا ”مختصر اورسویٹ فیصلہ“ سنائیں گے۔

Supreme Court