ق لیگ کی پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواست گزار راجا امیر خان کے وکیل اور ق لیگ کی جانب سے جوابات جمع کروا دیے گئے ہیں، ق لیگ نے پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی ہے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست کیس میں درخواست گزار اور ق لیگ کی جانب سے جوابات جمع کرادیئے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائے گٸے ق لیگ کے تحریری جواب میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کا بنا قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے، جس سے سپریم کورٹ عدلیہ کی آزادی کو فروغ ملا ہے
ق لیگ کے تحریری جواب میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون عدلیہ کے اختیارکے خلاف نہیں، اس قانون میں چیف جسٹس پاکستان کے اختیار کو دو سینئر ججز کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
ق لیگ نے اپنے جواب میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ قانون سے عدلیہ کے اختیار میں کمی نہیں اضافہ ہوا پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کیخلاف درخواستوں کو مسترد کیا جائے۔
دوسری جانب درخواست گزار راجہ امیرخان کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے بھی تحریری جواب عدالت میں جمع کرایا ہے جس میں کہا کہ پریکٹس قانون تحت ججز تین رکنی کمیٹی سنے بغیر درخواست کو مسترد کردے گی۔
خواجہ طارق رحیم نے اپنے جواب میں مؤقف پیش کیا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت اختیارات کی آئینی تقسیم کی خلاف ورزی ہے، پارلیمنٹ عام قانون سازی سے آرٹیکل 184/3 کے اختیار کا طریقہ تبدیل نہیں کر سکتی۔
وکیل طارق رحیم نے جواب میں یہ بھی کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون سے عدالتی امورز کی انجام دہی تبدیل نہیں کی جا سکتی، فل سپریم کورٹ 1980 کے رولز میں ترمیم کر سکتی ہے، بلا شبہ پارلیمنٹ سپریم ہے، لیکن پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی نہیں کر سکتی۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب میں سپریم کورٹ سے استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی میں ٹمپرنگ نہیں کی جا سکتی، چیف جسٹس اختیارات کی تقسیم کا قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر کو کالعدم قرار دیں۔
Comments are closed on this story.