یہ دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ دلائل دینا ہی نہیں چاہتے، آپ جج نہیں ہیں، آپ درخواست پر دلائل دیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی اپیل نے تو سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھا دیا ہے، پارلیمنٹ بہتری لانا چاہ رہی ہے تو سمجھ کیوں نہیں رہے، اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق بتائیں۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ڈرائیں نہیں آپ وضاحت دیں، وکیل کا کام ہے کہ بتائے کون سے صفحے پر کیا لکھا ہے، سپریم کورٹ قانون سے بالاتر ہے یہ کہاں لکھا ہے، I, Me and Myself اس کو یہاں استعمال نہ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے، آرٹیکل 184/3کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے، آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے، میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، سپریم کورٹ میں57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہے، ہمارا وقت بہت قیمتی ہے، آپ ہرسوال کا جواب نہ دیں صرف اپنے دلائل دیں، آپ بتا دیں کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ امتیاز صاحب لگتا ہے آپ دلائل دینا ہی نہیں چاہتے، آپ جج نہیں آپ دلائل دیں، نظرثانی اپیل نے تو سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھا دیا ہے، ہمیں ڈرائیں نہیں آپ وضاحت دیں۔
Comments are closed on this story.