مہسا کی ظالمانہ موت سے کہانی ختم نہیں ہوئی، امریکی صدر
ایران میں اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والی 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی پہلی برسی پر ان کے آبائی شہر میں سیکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔
ایرانی اخلاقی پولیس نے تہران میں ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں مہسا امینی کو گزشتہ سال حراست میں لیا تھا جہاں وہ ہلاک ہو گئی تھیں، اہل خانہ کے مطابق انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
مہسا امینی کے ہلاکت کے بعد ایران میں کئی مہینوں تک پُرتشدد حکومت مخالف مظاہرے کیے گئے۔ مظاہروں کے بعد ایرانی حکام نے حجاب کے لازمی قوانین کے نفاذ کے انتہائی طریقوں سے بڑی حد تک گریز کیا تھا، جو ملک میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے فورا بعد نافذ کیے گئے تھے۔
گزشتہ چند ماہ سے پولیس حجاب کی خلاف ورزی کرنے والوں کی نشاندہی کے لیے نگرانی کیمروں کا استعمال کر رہی ہے جنہیں وارننگ، جرمانے یا عدالت میں پیش ہونے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ جن لوگوں کو ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا جبکہ ان کی گاڑیوں کو ضبط کیا جاسکتا ہے۔
مہسا امینی کی پہلی برسی پر امریکی صدر بائیڈن نے جاری بیان میں مہسا امینی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دنیا میں ہر جگہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال دیکھا کہ مہسا کی کہانی ان کی ظالمانہ موت کے ساتھ ختم نہیں ہوئی، جس نے عورت کی آزادی کی ایک تحریک کو جنم دیا ہے اور پوری دنیا کو متاثر کیا۔
جمعہ کے روز ویب مانیٹر نیٹ بلاکس نے بتایا کہ ایران کے جنوب مشرقی شہر زاہدان میں انٹرنیٹ سروس کو استعمال کرنے میں رکاوٹ پیش آرہی ہے، جس کا مقصد حکومت مخالف مظاہروں کو روکنا ہے۔
صدر بائیڈن نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ امریکا نے 70 سے زیادہ ایرانی افراد اور اداروں پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں، جو وہاں عوام پر حکومت کے جبر کی حمایت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
Comments are closed on this story.