خیبرپختونخوا میں ایم ڈی کیٹ کے غیرمعمولی نتائج نے شبہات پیدا کردیے
خیبرپختونخوا میں منگل کو میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (MDCAT) کے نتائج کا اعلان کیا گیا، لیکن جیسے ہی نتائج جاری ہوئے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایویلیوایشن ایجنسی (ای ٹی ای اے) خیبرپختونخوا نے جیسے ہی سوشل میڈیا پر نتائج شئیر کیے تو سوشل میڈیا صارفین نے شرکاء کے حاصل کردہ نمبروں پر سوال اٹھا دیا۔
صارفین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر 2023 کے نتائج کا موازنہ 2022 کے نتائج سے کیا اور دعویٰ کیا کہ اس سال کم از کم 110 طَلَبہ نے 200 میں سے 190 نمبر حاصل کیے، جبکہ پچھلے سال صرف دو طلبہ ایسے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ایم ڈی کیٹ دراصل متعدد انتخابی سوالات (MCQs) پر مشتمل ہوتا ہے، جس کے ہر سوال کا ایک نمبر ہوتا ہے، اور غلط جوابات کے مارکس نہیں کاٹے جاتے۔ اس میں 68 سوالات حیاتیات سے، 54 کیمسٹری سے، 54 فزکس سے، 18 انگریزی زبان سے، 6 منطقی استدلال سے شامل کیے جاتے ہیں اور کُل نمبرز 200 ہوتے ہے۔
نتائج سے پتا چلتا ہے کہ 46,439 رجسٹرڈ امیدواروں میں سے 110 امیدواروں نے 190 یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کیے جبکہ ایک ہزار سے زائد طلبہ نے 180 سے 189 نمبر حاصل کیے۔
جب طلبہ 10 ستمبر کو MDCAT کے لیے پہنچے تو #MDCAT ایکس کے سرفہرست ٹڑینڈز میں شامل تھا کیونکہ مبینہ طور پر ایک دن پہلے پیپر لیک ہو گیا تھا۔
بہت سے صارفین مبینہ پیپر کی تصاویر شیئر کر رہے تھے۔
منگل کو اطلاع ملی کہ خیبرپختونخوا میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے صوبے میں نقل کی کوششیں ناکام بنائیں۔
ایچ ای سی کی سیکرٹری انیلہ محفوظ درانی کے مطابق، نقل کی اس اسکیم میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔
حکام نے درجنوں طالب علموں کو نقل کے لیے خفیہ بلوٹوتھ ڈیوائسز استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا۔
انہیں اطلاع ملی تھی کہ ایک گروپ مبینہ طور پر پوشیدہ بلوٹوتھ ڈیوائسز کا استعمال کرتے ہوئے داخلہ ٹیسٹ میں ہیرا پھیری کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، تاکہ اُن طلبہ کو جوابات بھیجے جائیں جنہوں نے انہیں پیسے دیے تھے۔
امیدواروں نے پی ایم ڈی سی پر زور دیا ہے کہ اس طرح کی رپورٹس کے درمیان دوبارہ ٹیسٹ کرایا جائے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ نگراں وزیر صحت ندیم جان نے فیصلہ کیا ہے کہ ”ہمدردانہ نقطہ نظر“ لینے کے بعد کونسل سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے طلبہ کا الگ سے ٹیسٹ لے گی جو صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے بعد لیا جائے گا۔
امتحان کی تاریخ ماضی میں تنازعات کا مرکز رہی ہے، جس سے عبوری وزیر اعظم کو صورتحال کا نوٹس لینا پڑا۔
کچھ پوسٹس ایسی بھی تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کچھ سوالات سلیبس سے باہر تھے جبکہ کچھ سوالات کے جوابات درست نہیں تھے۔
سندھ میں پرچہ لیک ہونے کے خلاف کئی طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے امتحان دوبارہ کرانے اور پیپر لیک کرنے والوں کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک صارف نے نتائج کے حوالے سے لکھا، ’(نتائج) صرف بلیو ٹوتھ کا کارنامہ ہیں اور کچھ نہیں، اس طرح کے تکنیکی ٹیسٹ میں 198 سکور حاصل کرنے کے لیے طالب علم اتنے ذہین نہیں ہو سکتے، انعقاد کے عمل میں کچھ غلط تو ہوا ہے‘۔
Comments are closed on this story.