آئینی معاملات میں الجھا کرامتحان لیا گیا، عدالت کی کارکردگی متاثرہوئی، چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ آئینی مسائل میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا۔ عدالتی کارکردگی متاثرہوئی۔
نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بطورچیف جسٹس آخری مرتبہ نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کررہاہوں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی مسائل میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا ہے۔ عدالت خود کئی مرتبہ سخت امتحان اورماحول کا شکار بنی،جوواقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا لیکن عدالتی کارکردگی متاثرہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو لیکس کیس کے فیصلے میں تمام واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں رواں سال فروری میں عدالت میں پیش کیے گئے مقدمات کا ذکر کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال عدالت کی ایک سالہ کارکردگی پرروشنی ڈالی تھی ، تعیناتی کے ایک سال میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ 23 ہزارمقدمات نمٹائے ۔ اس سے قبل ایک سال میں نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد 18 ہزارتھی۔
انہوں نے کہا کہ کوشش تھی کہ زیرالتواء مقدمات 50 ہزارسے کم ہوسکیں، لیکن زیرالتواء مقدمات کی تعداد میں 2 ہزارکی کمی ہی کرسکے۔فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈیمز فنڈ قائم کیا گیا جس میں اگست 2023 میں 4لاکھ روپے کا اضافہ ہوا۔ اگست میں بھی فنڈزمیں رقم آنے کا مطلب عوام کا سپریم کورٹ پراعتماد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیمزفنڈ کے اس وقت 18.6 ارب روپے اسٹیٹ بنک میں انویسٹ کیے گئے ہیں، فنڈز کی نگرانی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ کررہا ہے۔
میری اورقاضی فائزعیسیٰ کی اپروچ الگ ہے
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے اپنے آنے والے ہم منصب جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیلئے نیک تمناؤں کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ تمام ساتھی ججوں کا میرے ساتھ برتاوبہت اچھارہا، جہاں آزاد دماغ موجود ہوں وہاں اختلاف ہوتا ہے۔ قاضی فائزعیسیٰ بہت اچھے انسان ہیں۔ میری اوران کی اپروچ الگ ہے۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ سبکدوش ہونے والےچیف جسٹس کےطورپربہت سی امیدیں لے کرجارہا ہوں۔ پُرامید ہوں کیونکہ سپریم کورٹ نے بہت مشکل وقت کاٹ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کسی نے بھی اسمبلی کی تحلیل کےبعد عام انتخابات90دن میں کرانےپراختلاف نہیں کیا، مشکل اس لیے پیش آئی کہ یہ ایک سیاسی لڑائی تھی۔ عدالت کی ذمہ داری یہ بتاناہے کہ آئین کیا کہتا ہے۔عدالت کی بھی کچھ آئینی حدود ہیں جن کے پابند ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شدید تنقید کےباوجود اس سال کے9ماہ میں صرف ایک ازخود نوٹس لیا امید ہے کہ میرے قابل جانشین ازخود نوٹس کے معاملے میں بہترمیکنزم بنائیں گے۔ عدالتی چھٹیوں کے دوران 5 اور7ججزہمہ وقت دستیاب اورانتھک کام کرتے رہے۔
میرے معصومانہ ریمارکس کو طنزیہ بیانات کے طور پر پیش کیا گیا
انہوں نے شکوہ کیا کہ میرے معصومانہ ریمارکس کوطنزیہ بیانات کے طورپرپیش کیا گیا، جب میں نےکہا ”گڈ ٹو سی یو“ تواس کوغلط رپورٹ کیا گیا، میں ہرایک کو گڈ ٹو سی یو کہتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافی معاشرے کی کان اورآنکھ ہوتے ہیں جن سے توقع ہوتی ہے وہ درست رپورٹنگ کریں گے۔ جہاں پرکوئی غلطی ہوئی اسے ہم نے اگنورکیا۔
انہوں نے کہا کہ درست رپورٹنگ پرمیڈیا کا خیر مقدم اورغلط رپورٹنگ پردرگزرکرتے ہیں، جب آزاد دماغ ملتے ہیں تبھی اختلاف رائے سامنے ہوتا ہے،امید ہے کہ سپریم کورٹ مزید مضبوط، بااختیار اورآزاد ہوگی۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ خواتین ججزکے سپریم کورٹ آنے سے سپریم کورٹ مزید مضبوط ہوا،سپریم کورٹ کے انتظامی عہدوں پربھی خواتین کا اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ناصرف اتفاق رائے بلکہ اختلاف رائے سے بہت کچھ سیکھا، دعا ہے کہ ملک میں استحکام آئے۔ جب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا تو عدلیہ سمیت ہر ادارہ مستحکم ہو گا۔
فل کورٹ ریفرنس میں بیرون ملک موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کے علاوہ سپریم کورٹ کے تمام ججز نے شرکت کی۔ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی موجود تھے۔
ریفرنس میں اٹارنی جنرل سمیت وکلاء کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔
Comments are closed on this story.