پابندی کے باوجود فرانس میں 300 لڑکیاں عبایا پہن کر اسکول پہنچ گئیں
فرانس میں نئے تعلیمی سال کے پہلے روز اسکولوں کی درجنوں طالبات کو عبایانہ پہننے سے انکار کرنے پرگھر واپس بھیج دیا۔
فرانسیسی وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے بی ایف ایم براڈکاسٹر کو بتایا کہ برقع پہننے پر پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیر کی صبح تقریبا 300 لڑکیاں عبایا پہن کر آئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر نے عبایا نہ پہننے پر رضامندی ظاہر کی ، لیکن 67 نے انکار کردیا جنہیں گھرواپس بھیج دیا گیا۔
حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اسکولوں میں عبایہ پر پابندی عائد کر رہی ہے۔ فرانس کے مطابق مسلم لڑکیوں کا برقع پہننا سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے جس کی وجہ سے پہلے ہی حجاب پر اس بنیاد پر پابندی عائد کی جا چکی ہے کہ یہ مذہبی وابستگی کی عکاسی کرتے ہیں۔
اس اقدام سے سیاسی دائیں بازو کو خوشی ہوئی لیکن ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ شہری آزادیوں کی توہین ہے۔
فرانسیسی وزیر تعلیم نے کہا کہ لڑکیوں کو ان کے اہل خانہ کے نام ایک خط دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سیکولرازم کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ ایک آزادی ہے۔
گیبریل اٹل نے کہا کہ اگر وہ دوبارہ عبایا پہن کر اسکول آتی ہیں تو ایک ”نیا مکالمہ“ ہوگا۔
پیر کی رات صدر ایمانوئل میکرون نے اس متنازع اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس میں ایک ’اقلیت‘ موجود ہے جو ’مذہب کو ہائی جیک کرتی ہے اور جمہوریہ اور سیکولرازم کو چیلنج کرتی ہے‘ جس کے ’بدترین نتائج‘ برآمد ہوں گے۔
میکرون نے تین سال قبل ٹیچر سیموئل پیٹی کے قتل کا حوالہ دیا جنہوں نے سوکس کی کلاس کے دوران پیغمبر اسلام کے کارٹون دکھائے تھے۔
انہوں نے یوٹیوب چینل ہیوگو ڈیکریپٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ہم اس طرح کام نہیں کر سکتے جیسے دہشتگرد انہ حملہ سیموئل پیٹی کا قتل نہ ہوا ہو‘۔
مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم نے ریاستی حکام کے خلاف شکایات کے لیے فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت اسٹیٹ کونسل میں ایک تحریک دائر کی ہے جس میں عبایا اور قمیض پر پابندی کے خلاف حکم امتناع کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے حقوق کے لیے ایکشن (اے ڈی ایم) تحریک کا منگل کو جائزہ لیا جا رہا تھا۔
فرانسیسی حکومت کے سامنے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے قائم کی گئی کونسل آف دی مسلم فیتھ (سی ایف سی ایم) کے مطابق عبایا پر پابندی سے ’امتیازی سلوک کا خطرہ بڑھ سکتا ہے‘۔ کونسل نے کہا کہ وہ اپنی شکایت ریاستی کونسل کے سامنے رکھنے پرغورکررہی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس لباس کی واضح تعریف کی عدم موجودگی ایک مبہم صورتحال اور قانونی غیر یقینی صورتحال پیدا کرتی ہے۔‘
رپورٹ میں ’من مانے‘ کنٹرول پر خدشہ ظاہرکرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کے لباس کا جائزہ لینے کا معیار ان کے لباس کے بجائے ’اصل، آخری نام یا جلد کے رنگ‘ پر مبنی ہوسکتا ہے۔
مارچ 2004 میں متعارف کرائے گئے ایک قانون کے تحت اسکولوں میں ’ایسا لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جن کے ذریعے طلباء بظاہر مذہبی وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔‘
ان میں عیسائی صلیبیں، یہودی کپا اور مسلمان حجاب شامل ہیں۔
حجاب کے برعکس عبایا کو اب تک انہیں کسی مکمل پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
موسم گرما کی تعطیلات کے بعد یہ مسئلہ فرانسیسی سیاست کا ایک اہم موضوع رہا ہے، ناقدین نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ عبایا پر پابندی کے ذریعے میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور دائیں بازو کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔
Comments are closed on this story.