رانی پور ملازمہ تشدد کیس کی ہولناکیاں، ’مجھے ہنساؤ، ناچو، آپس میں لڑو‘
رانی پور میں پیر اسد شاہ کی حویلی پر جاں بحق ہونے والی کم سن ملازمہ فاطمہ فرڑو کی والدہ شبانہ کا کہنا ہے کہ ملزم پیر فیاض شاہ نے فاطمہ کو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا کہہ کر حویلی میں رکھا تھا۔
شبانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پیر فیاض نے کہا فاطمہ کو حویلی چھوڑ جاؤ، وہ اُن کے (بچوں) ساتھ کھیلے گی۔ میں نے یہ کہہ کر منع کیا کہ آپ کی بیٹی سخت طبیعت کی مالک ہیں، جس پر پیر فیاض کہنے لگے کہ نہیں وہ بچی کو خوش رکھے گی۔‘
انہوں نے تین ہزار روپے کے عوض کے فاطمہ کو پیر فیاض شاہ کے حوالے کردیا۔
شبانہ نے بتایا کہ اس نو ماہ کے عرصے کے دوران ان کی فاطمہ سے صرف دو تین بار ملاقات ہوئی، وہ بھی حویلی کے گیٹ کے باہر۔
ان کے مطابق ملاقات کے وقت فاطمہ کے ساتھ ایک ملازمہ ہوتی تھی تاکہ اس پر نظر رکھ سکے، جبکہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے تھے۔ اس لیے فاطمہ کوئی بات نہیں بتاتی تھی نہ کسی تکلیف کا ذکر کرتی تھی۔
بی بی سی کے مطابق شبانہ آخری بار 28 جولائی کو اپنی بیٹی سے ملنے گئیں، انہوں نے فیاض شاہ کی منت سماجت کی کہ خاندان میں شادی ہے اس لیے فاطمہ کو ساتھ لے جانے دیں، مگر فیاض شاہ نہیں مانے اور وہ واپس لوٹ آئیں۔ اس کے بعد شبانہ کے شوہر بھی اپنی بیٹی کو لینے حویلی گئے لیکن انہیں بھی ناکام لوٹنا پڑا اور پھر بلآخر اس کی لاش واپس آئی۔
فاطمہ کی والدہ نے بتایا کہ ’جب ہم نے فاطمہ کو دفن کیا تو اس کے بازوؤں اور گلے پر تشدد کے نشانات تھے۔ بال نوچے ہوئے تھے جبکہ ایک بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ ہم نے فاطمہ کے زخم تو دیکھے لیکن اس پر ہونے والا ظلم نہیں دیکھا تھا۔‘
ویڈیوز کیسے سامنے آئیں؟
فاطمہ فرڑو کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہوئیں، جن میں سے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج تھی جو حویلی سے فاطمہ کی لاش گاؤں لانے والے نوجوانوں نے اصرار کرکے حاصل کی تھی۔
فاطمہ کی لاش گاؤں لانے والے نوجوانوں میں سے ایک محمد حسن فرڑو نے بی بی سی کو بتایا کہ دوپہر دو ڈھائی بجے ان کے رشتہ دار نے فون کر کے گاؤں میں بتایا کہ فاطمہ فوت ہوگئی ہے۔
حسن فرڑو کے مطابق فاطمہ کے والدین غریب ہیں اس لیے وہ تین دوست لاش لینے کے لیے بائیک پر روانہ ہوئے۔
حسن فرڑو نے بتایا کہ ’حویلی پہنچے تو خاموشی تھی، وہاں سے پھر ڈیرے پر گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد فیاض شاہ نکل کر آئے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ فاطمہ کیسے فوت ہو گئی؟ انہوں نے ڈاکٹر اور لیبارٹری کی رپورٹس دکھائیں۔ ہم نے کہا کہ وہ تو ٹھیک تھی جس پر انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیتا ہوں۔ اس کے والدین کو دکھانا لیکن کسی اور کو نہ دکھانا۔ ایک گھنٹے انتظار کے بعد فون سے اسکرین ریکارڈ کر کے ہمیں دے دی۔‘
جو ویڈیو حسن اور ان کے دوستوں کو دی گئی اس میں ایک ہی کمرے میں اسد شاہ اور فاطمہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔
دونوں کے ایک ہی کمرے میں موجودگی پر اسد شاہ کی والدہ نے میڈیا کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ چھوٹے بچوں کی وجہ سے ان ملازماؤں کو کمرے میں رکھا جاتا تھا۔
حسن نے بتایا کہ انہوں نے یہ ویڈیو والدین اور رشتے داروں کو دکھائی لیکن کوئی اعتبار نہیں کر رہا تھا، جب صبح فاطمہ کی تدفین سے قبل اس کو غسل کرایا گیا تو اس کے جسم پر تشدد کے نشان موجود تھے۔ غسل سے قبل بھی بچی کی ایک ویڈیو بنائی گئی جو محمد حسن کے مطابق ان کی ایک کزن نے بنائی تھی، جس کے بعد یہ دونوں ویڈیوز ساتھ شیئر ہونے لگیں۔
حویلی میں کام کرچکی ایک ملازمہ نے بی بی سی سے گفتگو میں تصدیق کی کہ فاطمہ پر مبینہ طور پر تشدد ہوا اور وہ تشدد کی چشم دید گواہ ہیں، اور انیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’فاطمہ گھریلو کام کاج میں تھوڑی سی بھی غلطی کرتی تو بی بی اس کو کہتی تھیں کہ میں تمہارا خون پی جاؤں گی، تمہیں مار ڈالوں گی۔ بی بی ہمیں کہتی کہ گرم پانی پیو، جو کھانا بچ جاتا وہ ہمیں کھانے کے لیے دیتیں، رات کو چار پانچ بجے جب بچے سو جاتے تب ہمیں سونے کی اجازت تھی۔ ہم صبح دس بجے اٹھ جاتے تھے۔ تشدد کرنے کے علاوہ بی بی ہمیں کہتی تھیں کہ مجھے ہنساؤ، ڈانس کرو، آپس میں لڑو۔‘
ان کے مطابق جب انہوں نے فاطمہ کو تڑپتے دیکھا تو وہ ڈر کر حویلی سے بھاگ نکلیں۔
مفرور ملازمہ کے مطابق حویلی سے فرار کے بعد انہوں نے درگاہ پر پناہ لی، جبکہ پیر نے ان کے تعاقب میں لوگ بھی بھیجے، لیکن پھر ان کا اپنے رشتے داروں سے رابطہ ہوا جو انہیں گاؤں لے آئے۔
فاطمہ کے گاؤں کی ایک اور خاتون نے بھی اپنی بیٹی کو حویلی میں ملازمہ رکھوایا تھا لیکن پھر وہ اسے واپس لے آئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میری دس سال کی بیٹی کو بی بی نے آنکھ پر مکا مارا، جس کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں پا رہی تھی۔ اس نے کہا کہ امی میرا سر گھوم رہا ہے۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ بی بی حنا نے ان کی بیٹی کے چہرے پر میک اپ کیا اور کہا کہ والد کو جا کر بتانا کہ آنکھ پر ری ایکشن ہوا ہے اور اگر ایسا نہ کہا تو دوبارہ ماروں گی۔
جس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو لے کر واپس گاؤں آگئیں، جہاں پیر بچی کو لینے آیا تو وہ ڈر کر کھیتوں میں بھاگ گئیں۔
Comments are closed on this story.