پرویز الہیٰ کو اٹک جیل سے بازیاب کرانے کا حکم، نیب نے گرفتاری روکنے کا فیصلہ چیلنج کردیا
لاہور ہائیکورٹ نے پرویزالہیٰ کو کل عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں توہین عدالت اور محکمانہ کارروائی ہوگی۔ دوسری جانب نیب نے یکم ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ کا پرویز الہیٰ کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم چیلنج کردیا ہے، جبکہ لاہورہائیکورٹ میں پرویزالہٰی کی بازیابی کا کیس منگل کی کازلسٹ سے نکال دیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود پرویز الہیٰ کو گرفتار کرنے کے خلاف قیصرہ الہیٰ کی درخواست پر جسٹس امجد رفیق نے سماعت کی۔
لیکن اس دوران اٹک جیل میں پرویز الہیٰ کی طبیعت خراب ہوگئی، انہیں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کا طبی معائنہ کرکے واپس جیل بھیج دیا گیا۔
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو درخواستگزار کے وکیل نے جسٹس امجد رفیق سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے پرویز الٰہی کو گھر تک پہنچانے کا حکم دیا تھا اور انکی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی، مال روڈ پر پرویز الٰہی کو گرفتار کرنے کی پہلی کوشش کی گئی، جب انہیں گرفتار کیا گیا تو اڑھائی سے تین سو نقاب پوش اور چالیس سے پچاس گاڑیاں آگئیں.
وکیل نے بتایا کہ دو پولیس کی گاڑیوں نے پرویز الٰہی کی گاڑی کو روکا، 15 سے 20 سول لوگوں نے دروازہ کھولا، سارا آپریشن ایک منٹ کا تھا، میں پوچھتا رہا کہ آپ کے پاس کوئی وارنٹ ہے، انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، پرویز الٰہی چیختے رہے کہ کوئی آڈر ہے تو دکھائیں۔
عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن اور ایس پی سیکیورٹی لاہور کو طلب کیا، تو سرکاری وکیل نے بتایا کہ ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سرکاری دورے پر بلوچستان گئے ہیں۔ سرکاری وکیل نے دونوں افسران کی جانب سے لیگل ڈی ایس پیز جواب جمع کروایا۔
عدالت نے سرکاری وکیل کو حکم دیا کہ آپ دونوں افسران سے فون پر پوچھ لیں کہ آج پیش ہوں گے یا نہیں؟ اگر وہ آج پیش نہ ہوئے تو انہیں شوکاز نوٹسز جاری کیے جائیں گے۔
عدالت نے دونوں افسران کو پیش ہونے کے لیے 11 بجے تک مہلت دے دی۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ آئی جی پنجاب کو پیش ہونے کے لیے مہلت دی جائے۔
عدالت نے آئی جی پنجاب کو دوپہر 2 بجے پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر آئی جی پنجاب پیش نہ ہوئے تو عدالت حکم جاری کرے گی۔ ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن بھی 2 بجے عدالت میں پیش ہوں۔
سماعت ایک بار پھر شروع ہوئی تو عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب، ڈی آئی جی سکیورٹی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ آپ کے دو افسران کہاں ہیں، کیا ان افسران میں سے کسی نے بتایا تھا کہ کوئی پرویز الہی کو ان کے پاس سے لے گئے ہیں۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نے کہا کہ جی انہوں نے بتایا تھا، اور میں نے اس حوالے سے ہائیکورٹ میں رپورٹ جمع کروا دی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جب انہوں نے یہ رپورٹ کیا تو آپ نے کیا کیا۔ جس پر آئی جی نے بتایا کہ چوہدری پرویز الہی کو اسلام آباد پولیس لے گئی ہے، میں اسلام آباد پولیس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔
جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ آپ کو بلانے کا مقصد حقائق کو منظر عام پر لانا ہے، اسلام آباد پولیس کل کو کچھ اور کہے، اس لیے آپ کو بلایا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ اگر میرے افسر نے توہین عدالت کی ہوگی تو میں ذمہ دار ہوں، یہ نوکری آنی جانی چیز ہے میں اس کی مکمل تحقیقات کراؤں گا، میں پرویز الٰہی کے معاملہ کی از سر نو تحقیقات کرواؤں گا۔
آئی جی پنجاب نے استدعا کی کہ مجھے تحریری جواب جمع کروانے کے لیے مہلت دی جائے، عدالت کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ دونوں پولیس آفیسر واپس آکر عدالت میں پیش ہوں گے۔
جسٹس امجد رفیق نے آئی جی پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں سوا دو سال سے یہاں بیٹھا ہوں، مجھے آپ جانتے ہیں میرے کام کو جانتے ہیں، یہ کہنا کہ میں پرسنل ہوا ہوں یہ افسوس کی بات ہے، کیا پولیس کو نہیں پتہ کہ پرویز الٰہی کہاں پر ہیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ مجھے واقعی نہیں پتا۔
عدالت نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کیس میں چشم دید گواہ بھی ہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی پہلے ایک دو کیسسز میں رہا ہوں۔
جسثس امجد رفیق نے دوبارہ استفسار کیا کہ پرویز الٰہی اس وقت کہاں ہیں۔ جس پر آئی جی پنجاب نے دوبارہ جواب دیا کہ ہمیں بالکل نہیں پتہ پرویز الٰہی کہاں ہیں۔
عدالت نے پھر استفسار کیا کہ آپ کو واقعی ہی نہیں پتہ۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بھی جواب دیا کہ ہمیں بلکل نہیں پتہ پرویز الہی کہاں ہیں۔
آئی جی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
عدالت نے کل پرویز الہی کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا، اور کہا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اٹک جیل سے پرویز الہی کو کل عدالت لائیں۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، اور ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں توہین عدالت اور محکمانہ کارروائی ہوگی۔
واضح رہے کہ یکم ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا بھی حکم دیا تھا، تاہم وہ جیسے ہی لاہور ہائی کورٹ سے نکل کر کینال روڈ پہنچے تو انہیں اسلام آباد پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا۔
پولیس اہلکاروں نے پرویزالہیٰ کو ہاتھوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اٹھایا، گاڑی میں بٹھایا اور انہیں لے کر چلی گئی۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا پرویزالہیٰ کی گرفتاری پر سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہ
حکام کے مطابق پرویزالہٰی کو تھری ایم پی او کے تحت 15 روز کیلئے گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں 15 دن کیلئے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے گا، لیکن رات گئے انہیں اٹک جیل پہنچا دیا گیا۔
پرویزالہٰی کی بازیابی کا کیس کازلسٹ سے نکال دیا
لاہورہائیکورٹ میں پرویزالہٰی کی بازیابی کا کیس کل ( منگل ) کی کازلسٹ سے نکال دیا گیا، جسٹس امجد رفیق نے کل پرویزالہی کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس امجد رفیق کل سے پرنسپل سیٹ پر کیسز کی سماعت نہیں کریں گے، بلکہ کل سے ملتان بینچ میں کیسز کی سماعت کریں گے۔
جسٹس امجد رفیق 28 اکتوبر تک ملتان بینچ میں کیسز کی سماعت کریں گے، جسٹس امجد کا ملتان بینچ میں ٹرانسفر کا روسٹر 30 اگست کو جاری ہوا تھا۔
Comments are closed on this story.