جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن سے ایک اور اختلافی نوٹ لکھ دیا
سپریم کورٹ کا نیب ترامیم کیخلاف کیس میں 29اگست کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا گیا ہے، تحریری حکمنامہ میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے، جس میں لکھا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسییجر ایکٹ درست ہونے کی صورت میں موجودہ کیس کا فیصلہ غیرمؤثرہوجائے گا۔
سپریم کورٹ میں زیرسماعت نیب ترامیم کیخلاف کیس میں 29 اگست کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا گیا ہے، جس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ میں نے نیب ترامیم کیخلاف کیس سننے کیلٸے فل کورٹ تشکیل دینے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلے تک کارروائی روکنے کی رائے دی، جس پر میرے دونوں ساتھی ججز نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا، میں اپنے دونوں ججز سے اختلاف کرتے ہوئے یہ نوٹ تحریر کر رہا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت مقدمات سننے کیلئے تین رکنی کمیٹی اور پانچ رکنی بینچ تشکیل دینے کا ذکر ہے، بادی النظر میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا اطلاق نیب کیس تمام زیر التواء مقدمات پر بھی ہوتا ہے۔
اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو درست قانون قرار دیا گیا تو اس کا اطلاق عدالتی فیصلے کے بجائے قانون کی منظوری سے ہوگا، اور درست قرار دینے کی صورت میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ خود بخود غیر موثر ہو جائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ میری رائے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ تین رکنی بینچ کے بجائے 8 رکنی بینچ نے کرنا ہے، وفاقی حکومت کا یہ کہنا کہ قانون کو معطل نہیں کیا جا سکتا یہ طے کرنا بھی 8 رکنی بینچ کا کام ہے۔
مزید پڑھیں: پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس میں فل کورٹ کی درخواست مسترد، پارلیمانی کمیٹی کا ریکارڈ طلب
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ میری نظرمیں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو معطل کرنے کی جو وجوہات تھیں یہ فیصلہ بھی 8 رکنی بینچ نے کرنا ہے، ہمارا یہ تین رکنی بینچ کسی دوسرے عدالتی بینچ کے فیصلے کا دفاع نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: جسٹس منصور علی شاہ کا فل کورٹ تشکیل دینے کا مشورہ
انہوں نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق ماضی سے ہوگا یا نہیں یہ فیصلہ بھی 8 رکنی بینچ نے ہی کرنا ہے، اگر ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے فیصلے کا انتظار کریں تو اس کیس پر لٹکتی ہوئی تلوار ہٹ جائے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو 13 اپریل کو معطل کیا گیا، چار ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جا سکا، براہ راست عدلیہ کے امور سے متعلق قانون پر غیر ضروری تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔
مزید پڑھیں: نیب ترمیم کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے پر جسٹس منصور نے تحفظات ظاہر کردیئے
اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ نیب ترامیم کے خلاف تقریباً 50 سماعتیں ہو چکی ہیں، اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا پہلے ہی فیصلہ کر دیا جاتا توعدالت آسانی کے ساتھ قانون کے مطابق اپنے امور کو جاری رکھتی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر حکم امتناع جاری کرنے کی بجائے جلد فیصلہ کر لیا جاتا توغیر یقینی کی صورتحال پیدا نہ ہوتی، میں فوجی عدالتوں کے خلاف کیس میں بھی اسی نوعیت کی رائے دے چکا ہوں۔
جسٹس منصور نے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا کہ میں اپنی رائے کو پھر دہراتا ہوں کہ نیب ترامیم کیس کے فیصلے سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ کیا جائے یا فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
Comments are closed on this story.