حکومت پیٹرول سے فی لیٹر کتنا کما رہی ہے
نگران حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں اور پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر کے پیش نظر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن قیمت بڑھنے کا ایک سبب پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں اضافہ بھی ہے جس کا حکومتی بیان میں ذکر نہیں کیا گیا۔
تاہم اوگرا کے حساب کتاب میں یہ واضح ہے۔ پیٹرولیم لیوی 60 روپے فی لیٹر پہنچنے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پیٹرول پر صرف اسی ایک ٹیکس سے رقم کما رہی ہے یا بجلی کے بلوں کی طرح یہاں بھی ایک سے زائد ٹیکسز عائد ہیں۔
پندرہ روپے فی لیٹر اضافے کے بعد پیٹرول 305 روپے 36 پیسے فی لیٹر ہوگیا ہے۔
ہر مرتبہ جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو اوگرا کی جانب سے حساب کتاب کی تفصیلی دستاویزات جاری کی جاتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پیٹرول بیرون ملک سے کتنے میں خریدا گیا اور اس پر کون کون سے ٹیکس عائد ہیں۔
ریفائنریوں کی محدود صلاحیت اور دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان اپنی زیادہ تر پیٹرولیم مصنوعات تیار شدہ حالت میں درآمد کرتا ہے۔ یعنی خام تیل کے بجائے پیٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل اور دیگر مصنوعات منگوائی جاتی ہیں۔
پیٹرول دو مختلف معیارات کا منگوایا جاتا ہے جن میں سے رون 95 کا نسبتا بہتر پیٹرول اور رون 92 کا پیٹرول شامل ہے۔
اوگرا کے تخمینے کے مطابق 16 اگست سے 31 اگست کے دوران پاکستان نے جو پیٹرول منگوایا اس مین سے رون 95 کا پیٹرول 104.49 ڈالر فی بیرل میں خریدا گیا جب کہ رون 92 کا پیٹرول 98.65 ڈالر فی بیرل میں پاکستان نے خریدا۔
ان مصنوعات پر 3.59 ڈالر فی بیرل کا پریمیئم عائد کیا جاتا ہے جس میں مال برداری کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
ایک بیرل میں تقریباً 159 لیٹرز ہوتے ہیں۔ اوگرا تیل کی قیمت کا اندازہ لگانے کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی ڈالر میں قیمت کو اوسط شرح مبادلہ سے ضرب دیتی ہے۔
سولہ سے 31 اگست تک اوسط شرح مبادلہ 299.76 روپے فی ڈالر رہی۔
اس حساب سے رون 95 کا پیٹرول فریٹ چارجزسمیت حکومت کو 203.76 روپے میں پاکستان میں دستیاب ہوا۔
پیٹرولیم مصنوعات پر سب سے پہلا ٹیکس کسٹم ڈیوٹی کی صورت میں لگایا جاتا ہے۔ یہ ڈیوٹی تمام مصنوعات پر لگتی ہے اور اس کی شرح 10 فیصد ہے۔
یعنی یکم ستمبر سے پیٹرول پر 24 روپے کا ٹیکس بندرگاہ پر پہنچتے ہی لگ رہا ہے۔ یوں درآمدی قیمت قیمت 224 روپے فی لیٹر ہوگئی۔
اس کے بد پیٹرول آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے نظام میں داخل ہوتا ہے جہاں سے یہ پیٹرول پمپوں تک پہنچتا ہے۔
آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو جس قیمت پر تیل فراہم کیا جاتا ہے اسے پی ایس او کاسٹ آف سپلائی کہا جاتا ہے اور یہ قیمت اس وقت 228.59 روپے فی لیٹر ہے۔
یہاں پر تیل کمپنیوں، پیٹرول پمپ مالکان کے منافعے سمیت دیگر چارجز لگتے ہیں جب کہ 60 روپے فی لیٹر کا حکومتی ٹیکس پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی صورت میں لگتا ہے۔
آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا مارجن 6 روپے فی لیٹرز ہے اور ڈیلرز کا کمیشن 7 روپے فی لیٹر۔ اس کے علاوہ 3.77 روپے فی لیٹر ان لینڈ فریٹ مارجن کی صورت میں وصول کیے جاتے ہیں تاکہ پیٹرول کی قیمت پورے ملک میں یکساں رہے اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کے سبب مختلف شہروں میں الگ الگ قیمتیں نہ ہوں۔
ان تینوں مارجنز کو نکال دیا جائے تو حکومت کسٹم ڈیوٹی اور لیوی کی صورت میں پیٹرول سے کم ازکم 84 روپے فی لیٹر کما رہی ہے۔
ماضی میں پیٹرول پر ایک تیسرا ٹیکس سیلز ٹیکس کی صورت میں بھی تھا لیکن یہ مارچ 2022 سے وصول نہیں کیا جا رہا۔
Comments are closed on this story.