Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، چیف جسٹس

زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جارہی ہے، جسٹس منصور، نیب ترامیم کیس میں سماعت ملتوی
اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2023 06:18pm
تصویر: اے ایف پی/ فائل
تصویر: اے ایف پی/ فائل

**سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پرسماعت چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو ساڑھے 12 بجے تک دلائل ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے، تاہم بعد ازاں سماعت ملتوی کردی گئی چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کیا ، ’خواجہ حارث صاحب آپ مانیں کہ نیب کا غلط استعمال ہوتا رہا‘۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، نیب قانون کا کاروباری شخصیات کے خلاف غلط استعمال کیا گیا، کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں، کرپشن معاشرے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ نیب ترامیم سے بہت سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی، ایف بی آر کو ملنے والی معلومات بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا، سوئس مقدمات عدم شواہد پر نہیں زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جارہی ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا، ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے اسے چلنے دیں۔ اگر پارلیمنٹرینز نے اپنے فائدے کیلئے قانون بنایا ہے تو آئندہ عوام ان کو منتخب نہیں کرے گی، اگر کرے گی تو نیب ترامیم پر دوبارہ غور کر لے گی۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں ورنہ جمہوری نظام نہیں چل سکے گا۔

نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پرسماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منصورعلی شاہ شامل ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔

چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ اجازت ہو تو مخدوم علی خان (وفاق کے وکیل ) سےایک بات پوچھوں، کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی۔ ایم ایل اے کےتحت حاصل شواہد کی حثیت ختم کردی گئی، اب نیب کوخود وہاں سروسزلینا ہوںگی جومہنگی پڑیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ایم ایل اے کےعلاوہ بھی بیرون ملک سےجائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تواس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔

نیب نےترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آرکا بیرون ملک سےحاصل کردہ ریکارڈ قابل قبول شواہد کےطورپرنہیں پیش کیاجاسکتا، کیا آئین پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟۔

وفاق کے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آئین میں صرف ملزم کےحقوق اور فیئرٹرائل کے بارے میں درج ہے، آئین پاکستان شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔ کل یہاں کہاگیاکہ نیب تحقیقات پراربوں روپےلگے،اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزاکی شرح 70فیصد سے کم ہے، ان میں سےبھی کئی مقدمات اوپرجاکر آپس میں طے ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہےہوتےہیں جوتشویش کی بات ہے،قتل کےمقدمات میں30 سے40 فیصد لوگوں کوانصاف نہیں ملتاجبکہ ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔

وکیل نے کہا ک کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کوشناخت کرنے سے انکارکردیتے ہیں۔ متاثرین کویقین ہی نہیں ہوتاکہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی تعاون کےذریعےملنے والےشواہد قابل قبول نہیں رہے۔ جس پروکیل نے کہا کہ ایف بی آرکو بیرون ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہوجاتی ہیں۔

چیف جسٹ نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آرکوملنے والی معلومات بطورثبوت استعمال نہیں ہوسکتیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے،بیرون ملک سے لائے گئے شواہد بھی ثابت کرنا نیب کی ہی ذمہ داری ہے۔ عدالتیں شواہد کو قانونی طور پر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں۔ سوئس عدالتوں نےآصف زرداری کیخلاف اپنے ملک کےشواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوئس مقدمات تو زائدالمعیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھےعدم شواہد پرنہیں۔

بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں

وفاق کے وکیل کا کہناتھا کہ اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی ،کوئی نہیں جانتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب پر دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ممالک سے باہمی قانونی تعاون کےذریعےشواہد لیے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بیرون ممالک سے حاصل کردہ شواہد کی کیا قانونی حیثیت ہے اور قانونی معاونت کی کتنی گنجائش ہے ؟۔ وکیل نے بتایا کہ بیرون ملک شواہد کے دفترخارجہ کے ذریعے تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے۔ بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔

ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ، آج کیس ختم کرنا ہے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسزکا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے ، ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پرمبنی فہرست ہے۔ کہ بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے،ہمارے پاس جمعہ کی وجہ سے آج ساڑھے بارہ بجے تک کا وقت ہے۔

انہوں نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کوساڑھے بارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو کچھ وقت لیں گے۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پیرتک وقت نہیں تحریری طورپرمعروضات دے دیں، ہم دیکھ لیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حال ہی میں سندھ سے نیب مقدمے میں ملزم پلی بارگین پرآمادہ ہوا لیکن نیب نے ملزم کے آمادہ ہونے پرپلی بارگین کی رقم بڑھادی جوکہ مضحکہ خیزعمل ہے۔ شکایت کنندہ کا بھی توخیال رکھنا ہوتا ہے۔ قانون کی کون سی شق ہے جوکہتی ہے کہ انصاف کے ترازومیں توازن برقرارہونا چاہیے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کرمنل لاء توکہتا ہے کہ ، ’ملزم قانون کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے‘، کسی کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے تو وہ عدالت آئے گا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نیب مقدمات میں پبلک آفس ہولڈرزکے احتساب کے عمل میں رکاوٹ سےعوام کے بنیادی حقوق متاثرہوتے ہیں۔

کس قانون کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قراردیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہکرمنل جسٹس سسٹم کوشفاف ہونا چاہیے،درخواست گزارکا کیس یہ ہے کہ نیب ترامیم سے ملزمان کوتحفظ دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک منٹ کیلئےمان لیتے ہیں کہ ارکان پارلمینٹ نےخود کو فائدہ پہنچانے کیلئے ترامیم کیں،کیا ہم نیب ترامیم کوکالعدم قراردے دیں؟ کالعدم قراربھی دیں توکس قانون کے تحت نیب کےترامیم کوکالعدم قراردیں؟۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 9 کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، کیونکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمنسٹی اسیکم کواگرٹیکس کاقانون قبول کررہا تونیب کا اس سےکیا تعلق ہے، ایمنسٹی اسیکم میں جس نےجائیداد ظاہرکرکے ٹیکس دے دیا، نیب اس کے پیچھے نہیں جاسکتا۔خواجہ حارث صاحب آپ مانیں کہ نیب کا غلط استعمال ہوتارہا۔ کرپشن معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم میں جرم کوختم کرنا قانونی ہےیاغیرقانونی؟۔ جسٹس منصورعلی شاہ بولے،جواب یہ ہے کہ آئندہ پارلیمنٹ آئےگی تونیب ترامیم پردوبارہ غورکرلےگی۔ اگرپارلیمنٹرینزنے اپنے فائدے کیلئے قانون بنایا توآئندہ عوام ان کومنتخب نہیں کرے گی ۔انتخابات سرپرہیں اورجمہوریت آئین کی بنیاد ہے۔ عدلیہ اورپارلیمنٹ کواپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں ورنہ جمہوری نظام نہیں چل سکے گا۔

درخواست گزارکی نیک نیتی کیا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسے لگ رہا ہےکہ زورلگا لگا کرتھک گئے کہ نیب ترامیم میں غلطی نکلے لیکن نہیں مل رہی، کچھ چیزوں کو فطرت پر بھی چھوڑیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس ایک چٹھی پربھی چلا سکتےتھے لیکن بنیادی حقوق کامعاملہ تھا اس لیے سن رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تویہ ہے کہ کیسےایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑکرچلاگیا۔

اس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا ہے یا چھوڑنا ہے۔

جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کا فورم موجود تھا،کیسےاپنی حلقے کی نمائندگی چھوڑدی۔ درخواست گزارکی نیک نیتی کیا ہے؟۔

چیف جسٹس نے اہنے ریمارکس میں کہا کہ میرے پاس ایسےکاروباری شخصیات کے نام بھی موجود ہیں جن کونقصان پہنچایا گیا، ایسے نہیں ہوناچاہیے کسی اکاؤنٹنٹ کوبٹھا کر10 روپے کی غلطی نکالی جائے،قانون کے مطابق کاروبارکرنے والی شخصیات کیخلاف نیب قانون کاغلط استعمال کیا گیا۔

جسٹس منصور شاہ نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ آپ نے پارلیمنٹ میں ہی ان باتوں پرلڑنا تھا جسے آپ چھوڑ کرچلے گئے۔ نشست سے استعفی دیناتھا تواسے کسی اورکیلئے خالی کرتے۔

دفاع میں خواجہ حارث بولے ، انہوں نے نشست سے استعفیٰ دیا تھا وہ منظورنہیں کیا گیا۔ اثاثوں سے متعلق شق بھی نیب کے سیکشن 9 میں ہے جس کی تعریف کرپشن کے طور پرکی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ ماضی میں کسی اثاثے کی مالیت کیا تھی یہ قیاس آرائی ہی ہو سکتی ہے،کوئی پراپرٹی ڈیلرہی کہہ سکتا ہے کہ یہ جائیداد کچھ برس قبل کتنی مالیت کی تھی۔ نیب کچھ توکنکریٹ شواہد لایا کرے کہ اثاثوں کی اصل مالیت سامنے نہیں آئی۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تو ایک چٹھی پر بھی نوٹس لے سکتے ہیں۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا وہ چٹھی کس نے بھیجی ہے،پارلمینٹ کا فورم چھوڑکرعدالت آنے سے نیک نیتی کا سوال توآئے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے نیب قانون کاکاروباری شخصیات کیخلاف غلط استعمال کیاگیا صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی، کئی لوگوں کے پاس منشیات اوردیگرذرائع سے حاصل داغدارپیسہ موجود ہے، داغدار پیسےکاتحفظ کرکے سسٹم میں بہت سےلوگوں کوبچایا جاتا ہے،ریاست نے یقینی بنانا ہےکہ مجرمان آزاد نہ گھومیں معاشی مواقع چھیننےکی وجہ سے لوگ ملک چھوڑکرجا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے جسٹس منصورعلی شاہ کے بنیادی حقوق کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثرہورہے ہیں،لوگ اپنےنمائندے کسی مقصد سےمنتخب کرتے ہیں اوروہ مقصد آئین میں درج ہے، لوگ ملک چھوڑجاتے ہیں جب روزگارکے مواقع ختم ہوجاتے ہیں،سیاسی طورپرمضبوط ہونا ہی ملک میں بقا کا لائسنس بن گیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا نیب کو ترامیم کے ذریعے قابو نہیں کرلیا گیا؟کیا جونیب کا ملزم ہے وہ خود قانون بنائے گا؟ کیا نیب ملزم خود قانون بنا کربتائے گا کہ اس کیخلاف کاروائی کیسے ریگولیٹ کی جائے؟۔

جسٹس منصورعلی شاہ بولے پارلیمان اگراپنے فائدے کیلئے قانون بنا بھی لے توعدالت کیا کرسکتی ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم نے آمدن سے زائد اثاثوں اختیارات کے غلط استعمال اور پلی بارگین سے متعلق ترامیم کو دیکھنا ہے۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کوتحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پانچ ستمبرتک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے بھی دلائل طلب کرلیے۔

Supreme Court

Asif Ali Zardari

PPP