عمران خان کی حمایت پر متعدد امریکی شہری گرفتار
آن لائن امریکی میگزین دی انٹرسیپٹ نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد پاکستان میں اب تک سیکڑوں پاکستانی نژاد امریکی و برطانوی شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، اور کریک ڈاؤن میں کتنے امریکی قید ہیں کسی کو تعداد کا علم نہیں ہے۔
انٹرسیپٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کے 2022 میں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے کیا جانے والا احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا، جس کے بعد کریک ڈاؤن میں اب تک سیکڑوں پی ٹی آئی کارکنان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گرفتار کئے جانے والے افراد میں ناصرف صحافی بھی شامل ہیں بلکہ کریک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے افراد میں سے کچھ امریکی اور برطانوی شہری اور رہائشی بھی ہیں، جنہیں مئی 2023 میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور جلاؤ گھیراؤ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران ہزاروں افراد کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار جاچکا ہے، اور ان کارروائیوں کے دوران حراست میں لیے گئے غیر ملکی شہریوں کی صحیح تعداد واضح نہیں ہے، تاہم ان میں سے ایک دوہری شہریت رکھنے والی پاکستانی نژاد خدیجہ شاہ بھی ہیں، جنہیں 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق خدیجہ شاہ کے حوالے سے جون میں امریکی حکومت نے بیان جاری کیا تھا کہ انہوں نے پاکستانی حکومت سے خدیجہ شاہ تک قونصلر رسائی کی درخواست کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قونصلر حکام نے ان کی گرفتاری کے بعد سے اب تک تین مرتبہ خدیجہ سے ملاقات کی ہے، اور ان کا آخری دورہ 27 جولائی 2023 کو ہوا تھا، ہم شاہ کے معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: یاسمین راشد اور خدیجہ شاہ سمیت دیگر کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع
انٹر سیپٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ چند اورسیز پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی جیلوں میں ممکنہ طور پر بہت سے ایسے پاکستانی بھی قید ہیں جن کے پاس غیر ملکی شہریت اور رہائش ہے۔
انٹر سیپٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر بھی کریک ڈاؤن سے فرار ہو کر برطانیہ چلے گئے ہیں، اور وہیں مقیم ہیں، جن کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے مزید امریکی اور برطانوی پاکستانی ممکنہ طور پر پاکستان کی جیلوں میں ہیں، اور ان کے اہل خانہ گرفتاریوں کے خوف سے ان سے ملنے یا ان کے لئے آواز اٹھانے سے خوفزدہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق شہزاد اکبر نے کہا کہ ہم نے بہت سے ممالک کی حکومتوں کی جانب سے جملہ سنا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کا اندرونی معاملہ ہے، جب کہ پاکستان میں حراست میں لیے گئے بہت سے افراد پاکستانی نژاد غیر ملکی شہری تھے، اس لئے آپ اسے صرف اندرونی معاملہ قرار دے کر مسترد نہیں کر سکتے۔
شہزاد اکبر کے بھائی کو بھی برطانیہ سے پاکستان واپسی پر گرفتار کر لیا گیا تھا، شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو 28 مئی کی رات پولیس نے گھر کا دروازہ توڑا اور انہیں حراست میں لے لیا، ہماری سیاسی مخالفین چاہتے ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف بدعنوانی کے ان الزامات کے حوالے سے گواہی دیں جن کی وجہ سے سابق وزیر اعظم اس وقت جیل میں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھے بیک چینلز کے ذریعے پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ اگر میں اپنے بھائی کی واپسی چاہتا ہوں تو مجھے پاکستان واپس آنا پڑے گا اور عمران خان کے خلاف گواہی دینی ہوگی، تاہم میں نے اس مطالبے پر انکار کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ شہزاد اکبر کے بھائی مراد اکبر تین ماہ کی گمشدگی کے بعد گزشتہ روز اپنے گھر پہنچ گئے تھے، اور پی ٹی آئی رہنما شہزاد اکبر نے اپنے بھائی کی واپسی کی اطلاع دیتے ہوئے ”ایکس“ (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری پیغام میں لکھا، ’یہ جان کر خوشی اور سکون ہوا کہ میرا بھائی مراد اکبر تقریباً 3 ماہ کی غیر قانونی قید کے بعد رہا ہو کر بحفاظت گھر پہنچ گیا ہے‘۔
تاہم انٹرسیپٹ سے گفتگو میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ میں کسی سیاسی جماعت کا کارکن نہیں ہوں بلکہ ایک پروفیشنل آدمی ہوں، مجھے سابقہ حکومت نے ایک ہدف کے لئے تعینات کیا تھا، کبھی نہیں سوچا تھا کہ حالات اس حد تک پہنچ جائیں گے کہ میرے بھائی کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کرلیا جائے گا، تاکہ مجھ پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے بیان دیا کہ بیرون ملک مقیم امریکی شہریوں کی حفاظت اور سلامتی سے بڑھ کر ہماری کوئی ترجیح نہیں ہے۔ ہم اس معاملے پر پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے قوانین اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کے مطابق تمام قیدیوں کے ساتھ منصفانہ اور شفاف سلوک کریں گے۔
انٹرسیپٹ کا کہنا ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی حکومتیں عمران خان کی برطرفی کو پاکستانی حکومت کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہیں۔ جب کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنے ایک بیان میں مئی کی بغاوت کے بعد سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں پر پاکستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اور کہا تھا کہ پاکستان میں فسادات کو روکنے اور امن عامہ کے لیے خطرہ پیدا کرنے والے بہت سے لوگوں پر حد سے زیادہ وسیع قوانین کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں ماورائے عدالت گرفتاریوں کے علاوہ حکومت پر حراست میں لیے گئے افراد پر تشدد کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ دی انٹرسیپٹ حال ہی میں پاکستان میں شہ سرخیوں میں آیا تھا جب اس نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کی جانب سے دفترخارجہ کو بھیجے گئے ایک سائفر کے مندرجات شائع کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
انٹرسیپٹ نے رواں ماہ کے شروع میں اس سائفر پر رپورٹ دی تھی جس کا ذکر عمران خان نے جیل جانے سے قبل عوامی سطح پر کیا تھا۔
پی ٹی آئی اس سائفر کو امریکی سازش کا ثبوت قرار دیتی رہی ہے جب کہ انٹرسیپٹ میں سائفر کے مبینہ مندرجات شائع ہونے کے بعد حکومت نے عمران خان کیخلاف سائفر کی گمشدگی کے الزامات میں کارروائی شروع کردی ہے۔
Comments are closed on this story.