’پائپ لائن 1947 سے تبدیل نہیں ہوئی‘ ۔ پشاور کے 94 فیصد شہری آلودہ پانی پینے پر مجبور
”مجھے یاد نہیں کہ میری زندگی میں انتظامیہ یا حکومت نے پانی کے پائپ لائن کو کبھی تبدیل کیا ہو، اب حکومت کا یہ کام تو ہم خود نہیں کرسکتے“، یہ الفاظ پشاور کے پھندو روڈ پر واقع علاقہ اخون آباد کے رہائشی 60 سالہ وارث خان کے ہیں۔
وارث خان کے مطابق بظاہر تو ٹیوب ویل سے نکلتا پانی صاف لگتا ہے لیکن انکے علاقے کے اکثر پانی پائپ لائن ٹوٹ پھوٹ یا لیکیج کا شکار ہیں یا پھر گندی نالیوں سے گزرے ہیں جبکہ چار سال قبل ٹیوب ویل کیساتھ نصب کیا گیا واٹر فلٹریشن پلانٹ صرف ایک روز چلنے کے بعد بند ہوگیا اور اب نہ صرف پلانٹ ناکارہ ہے بلکہ پلانٹ پر عوام کی سہولت کیلئے لگے نلکے بھی چوری ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے وہ پینے کیلئے آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔وارث خان نے بتایا کہ اکثر اوقات پانی کا نہ صرف رنگ بدل جاتا ہے بلکہ ذائقہ بھی زنگ آلود ہوتا ہے۔ وارث خان نے دعوی کیا کہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ان کے گھروں والے بالخصوص بچوں کو عموماً پیٹ کی بیماریوں کی شکایات رہتی ہے .وارث کو شک ہے کہ ان کا ایک بیٹا آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہی ہیپاٹائٹس کا شکار ہوا۔
شاہین مسلم ٹاون سے تعلق رکھنے والی 44 سالہ زرمینہ بی بی کو صبح سویرے پینے کیلئے اپنے علاقے کے ٹیوب ویل سے پانی لانا پڑتا ہے کیونکہ انکے گھر میں ٹیوب ویل سے آنیوالا پانی نہ صرف زنگ آلود پائپ لائن کی وجہ سے گندا ہوتا ہے بلکہ ذائقہ بھی انتہائی خراب ہوتا ہے جو پینے کے قابل نہیں ہوتا ہے۔پینے کے صاف پانی سے متعلق سوال پر زرمینہ نے جواب دیا کہ کیمیائی طور پر انہیں گندے پانی کا اندازہ نہیں لیکن انہیں صرف وہی پانی آلودہ لگتا ہے جس میں گند واضح نظر آتا ہو اور پانی کا ذائقہ معمول سے مختلف ہو۔
پشاور کی آبادی اور ٹیوب ویل سے پانی کا استعمال
نئی یا ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق 1 اعشاریہ 5 فیصد اضافے کے بعد پشاور کی آبادی 47 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو 2017 کی مردم شماری کے مطابق 43 لاکھ تھی۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی جانب سے افتخار احمد، میراج الحق اور عبدالستار کی تحقیق کے مطابق پشاور کے شہری علاقوں میں 71 فیصد اور دیہی علاقوں میں 11 فیصد شہری ٹیوب ویل (پبلک واٹر سپلائی) سے پینے کا پانی استعمال کررہے ہیں جبکہ باقی ذاتی بور، کنویں یا ہینڈ پمپ سے پانی پیتے ہیں۔
شہری آلودہ پانی پینے پر مجبور
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کی رپورٹ کے مطابق پینے کے پانی کا معیار جانچنے کیلئے پشاور کے مختلف ٹیوب ویلوں سے 10 منٹ تک پانی بہنے کے بعد پانی کے نمونے لئے گئے اور تجزیاتی نتائج سے پتہ چلتا کہ 50 فیصد پانی قابل استعمال نہیں تھا کیونکہ نمونوں میں آئرن پایا گیا جس کی بنیادی وجہ سٹیل کے پائپ یا پلمبنگ کے دیگر اجزاء ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران پینے کیلئے صاف پانی میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔پی سی آر ڈبلیو آر نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ پانی تب آلودہ ہو جاتا ہے جب پائپ لائنوں کو غیر قانونی کنکشن کیلئے ٹمپر کیا جاتا ہے جبکہ پرانی، زنگ آلود، غیر معیاری اور کھلی ڈسٹری بیوشن پائپ لائن کی وجہ سے بھی پانی آلودہ ہوتا ہے۔
جامعہ پشاور کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر بشرہ خان کی پینے کے پانی میں بیکٹیریل آلودگی سے متعلق ریسرچ میں انکشاف ہوا ہے کہ پشاور کے علاقہ تہکال، شامی روڈ، نوتھیہ، گلبہار، جامعہ پشاور، ایگریکلچر یونیورسٹی،گلبرگ،ڈیفنس کالونی،حیات آباد سمیت مختلف علاقوں سے لئے گئے نمونوں میں 88 فیصد پانی رہنما اصول کیخلاف تھا کیونکہ ایگریکلچر یونیورسٹی (296 ٹی ڈی ایس) کے علاوہ مذکورہ کسی علاقے میں بھی ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ پانی میں ٹوٹل ڈیزالوڈو سالڈ (ٹی ڈی ایس) 300 پارٹس پر ملین (پی پی ایم) سے کم نہیں تھا جبکہ پینے کے پانی میں ماخذ اور صارف دونوں جگہوں پر بیکٹیریا کی آلودگی تھی۔
واٹر فلٹریشن پلانٹس نہ ہونے کے برابر
خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت دائر درخواست (آر ٹی آئی) کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق واٹر سینیٹیشن سروسز پشاور(ڈبلیو ایس ایس پی) کے زیر انتظام پشاور میں 537 ٹیوب ویلز ہیں جن میں صرف 38 ٹیوب ویلوں کیساتھ واٹر فلٹریشن پلانٹ نصب ہیں جبکہ مختلف وجوہات کی بناء پر 38 میں بھی 8 غیرفعال ہیں۔ آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ دستاویز کے مطابق ہر ٹیوب ویل تقریبا 9 گھنٹے چلایا جاتا ہے اور مذکورہ ٹیوب ویل ایک گھنٹہ میں 13000 گیلن یا 49 ہزار 140 لیٹر پانی فراہم کرتا ہے جبکہ تمام 537 ٹیوب ویلز مجموعی طور پر ایک گھنٹے میں 69 لاکھ 81 ہزار گیلن یا 2 کروڑ 63 لاکھ 88 ہزار 180 لیٹر پانی فراہم کرتے ہیں اور 9 گھنٹے چلانے کے حساب سے تمام ٹیوب ویلوں سے 6 کروڑ 28 لاکھ 29 ہزار گیلن یا 23 کروڑ 74 لاکھ 93 ہزار 620 لیٹر پانی ملتا ہے۔
ڈبلیو ایس ایس پی سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق 507 ٹیوب ویل پر کوئی واٹر فلٹریشن پلانٹ نصب نہیں یا خراب ہیں اسلئے 507 ٹیوب ویلوں سے روزانہ 5 کروڑ 93 لاکھ 19 ہزار گیلن یا 22 کروڑ 42 لاکھ اور 25 ہزار 820 لیٹر پانی بغیر کسی فلٹریشن کے صارفین کے پاس جارہا ہے۔دستاویز کے مطابق شہری صرف 5 اعشاریہ 58 فیصد پانی فلٹر جبکہ 94 اعشاریہ 41 فیصد پانی بغیر فلٹر کے استعمال کررہے ہیں۔
ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، ہیضہ اور پولیو پھیلنے کا خدشہ
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے میڈیسن یونٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر طاہر خان کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، جگر اور ہیضہ سمیت پیٹ اور آنت کی بیماریاں پھیلتی ہیں جبکہ سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی سے بچوں میں پولیو وائرس پھیلنے کا خدشہ بھی ہے۔
ایمرجنسی آپریشن سنٹر خیبرپختونخوا سے حاصل کردہ دستاویز کےمطابق سال 2012 سے اب تک پشاور میں 54 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں. جبکہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں پاکستان پولیو لیبارٹری نے سال 2022 میں 17 اور رواں سال اب تک شہر کے 10 سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس پائے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔اسی طرح محکمہ صحت خیبرپختونخوا سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق جنوری 2022 سے اب تک 90 ہزار 291 ٹائیفائیڈ، 1 لاکھ 64 ہزار 309 ہیضہ اور 51 ہزار 80 ہیپاٹائٹس کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کے اندازے کے مطابق غیرمحفوظ پانی کے باعث صرف ایشیاء میں ہر سال تقریباً 500 ملین ہیضہ کے کیسز سامنے آتے ہیں۔
پانی کو ٹیسٹ کرنے کا طریقہ کار
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ خیبرپختونخوا کےمطابق پانی کے نمونے کے تین بنیادی اقسام (فزیکل، کیمیکل اور مائیکروبائیولوجیکل) میں سے تقریباً 20 ٹیسٹ کئے جاتے ہیں جس میں جانچا جاتا ہے کہ آیا ان تین پیرامییٹرز کے 20 ٹیسٹ کے نتائج ڈبلیو ایچ او یا پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے متعین کردہ حدود کے اندر ہیں یا نہیں۔
پشاور میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی اسٹنٹ پروفیسراوربائیو سیفٹی آفیسر ڈاکٹر حفصہ محمد سمجھتی ہیں کہ پانی کے نمونے ٹیسٹ کرتے وقت لیبارٹری میں بائیو سیفٹی کے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد انتہائی ضروری ہے کیونکہ پانی کو ٹیسٹ کرنیوالے کے ہاتھ اگر خود آلودہ ہوں یا پھر نمونوں کو مناسب طریقے سے نہیں سنبھالا جاتا تو اس کا اثر ٹیسٹ کے نتائج پر پڑسکتا ہے اور غلطی سے منفی کی جگہ مثبت نتائج دیکر صاف پانی کو بھی آلودہ قرار دیا جا سکتا ہے، اسی طرح بائیولوجیکل سہولیات یا آلات کو صاف کئے بغیر یا جراثیم دور کئے بغیر ماحولیات کا حصہ بنے یا پھر صاف پانی میں شامل ہو جائے تو یہ نہ صرف ایک خطرناک عمل ثابت ہو سکتا ہے بلکہ وباء کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ماحولیاتی پروفائل کیلئے فنڈز ختم
ماحولیاتی تحفظ ایجنسی خیبرپختونخوا (ای پی اے) کے ڈائریکٹر جنرل محمد انور خان نے بتایا کہ ہر سال صوبے میں ماحولیاتی پروفائل بنانا ای پی اے کی ذمہ داری ہے لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے 2017 کے بعد ماحولیاتی پروفائل نہ بنایا جا سکا اور اُس پروفائل کےمطابق فزیکو کیمیکل اور جمالیاتی پیرامیٹرز کے حوالے سے پینے کے پانی کا معیار تسلی بخش پایا گیا لیکن پانی میں بیکٹیریا پایا گیا جو پینے کے معیار کےمطابق نہیں تھا جس کی وجہ سے پانی سے پیدا ہونیوالی بیماریوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
انور خان نے بتایا کہ پانی کی فراہمی کی باقاعدگی سے جراثیم کشی لازمی ہے لیکن اس قبل ماحولیاتی پروفائل کے ذریعے آلودہ پانی کی نشاندہی ضروری ہے جس کیلئے صوبائی حکومت کو 1 کروڑ 50 لاکھ روپے کی رقم جاری کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور رقم جاری ہوتے ہی ماحولیاتی پروفائل پر کام شروع کیا جائیگا۔
1947 سے پائپ لائن کی عدم تبدیلی اور 99 فیصد پلانٹ ناکارہ
پشاور میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کے ریسرچ آفیسر ڈاکٹر منیب الرحمان نے آج نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے مؤقف دیا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کو صاف پینے کے پانی ترسیل کو یقینی بنائے لیکن پائپ لائن کے ذریعے صارفین کو پانی کی فراہمی جاری ہے جو محفوظ نہیں کیونکہ 1947 کے بعد 70 فیصد سے زائد پانی پائپ لائن کو تبدیل نہیں کیا گیا جبکہ 2008 سے 2011 تک کلین ڈرنکنگ واٹر فار آل (سی ڈی ڈبلیو اے) کے نام سے 4 سال منصوبے کے تحت ہر یونین کونسل میں فلٹریشن پلانٹ نصب کیا گیا تھا مگر پلانٹس مختلف محکموں کے حوالہ ہونے کے بعد خیال یا محفوظ نہ رکھنے کی وجہ سے اب 99 فیصد ناکارہ ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر منیب کی رائے ہے کہ فلٹریشن پلانٹس کو محفوظ رکھنے کیلئے علاقے میں کمیٹی تشکیل دے کر انکے حوالہ کرنا ہوگا تاکہ خرابی یا نلکہ ٹوٹنے کی صورت میں اہل علاقہ اپنی مدد آپ کے تحت مرمت ممکن ہوسکے۔
واٹرریسوس اتھارٹی اور کمیشن غیرفعال
ڈاکٹر منیب کا کہنا ہے کہ رولز نہ ہونے کی وجہ سے 2020 میں منظور ہونیوالے خیبرپختونخوا واٹر ایکٹ پر عملدرآمد نہیں ہورہا کیونکہ واٹر ایکٹ کے تحت واٹر ریسورس کمیشن اور واٹر ریسورس ریگولیرٹی اتھارٹی غیر مؤثر اور غیر فعال ہیں اور جب تک واٹر ایکٹ پر من وعن عملدرآمد شروع نہیں ہوگا تو پینے کے پانی سے متعلق تمام مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی ویب سائٹ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق خیبرپختونخوا واٹر ایکٹ 2020 کے سیکشن 22 کے تحت آلودہ یا مضر صحت پانی کی فراہمی جرم ہے۔ایکٹ کے سیکشن 22، 23 اور 25 کے تحت خیبرپختونخوا واٹر ریسورس ریگولیٹری اتھارٹی کو اختیارات دیے گئے ہیں کہ پائپ لائن کے ذریعے آلودہ پانی فراہم کرنے پر کمپنی، ادارے یا شخص پر پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے یا تین ماہ تک قید کی سزاء بھی دی جاسکتی ہے جبکہ کوئی بھی شخص یا فرد جب ارادی طور پر یا غفلت کے نتیجے میں پانی کو آلودہ کرنے کا مجرم قرار پاتا ہے تو اس پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
محکمہ آبپاشی خیبرپختونخوا کے چیف انجنیئر ساؤتھ اور خیبرپختونخوا واٹر ریسورس ریگولیٹری اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل انجینئر محمد یاسین نے بتایا کہ قانون پر عملدرآمد ہونے سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں پانی کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اتھارٹی میں فی الحال وہ فرد واحد ہے اسلئے اتھارٹی اختیارات کے استعمال سے قاصر ہے۔ محمد یاسین نے کہا کہ اتھارٹی سٹرکچر اور پھر اس میں درکار تعیناتیوں اور بھرتیوں کیلئے حکومت کو کئی خطوط ارسال کرچکے ہیں لیکن تاحال کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ محمد یاسین نے مؤقف اپنایا کہ جب تک اتھارٹی کو فعال بنانے کیلئے بھرتیوں اور تعیناتیوں کو عمل میں نہیں لایا جاتا تب تک قانون اور اسکے تحت اتھارٹی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ صرف ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی سے مسائل کسی صورت حل نہیں ہوسکتے۔
پشاور ہائیکورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ نے بتایا کہ واٹر ایکٹ کے تحت واٹر ریسورس کمیشن اور واٹر ریسورس ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام لازمی ہے کیونکہ کمیشن اور اتھارٹی کے بغیر قانون پر عملدرآمد ممکن نہیں لیکن بدقسمتی سے کئی قوانین ایسے ہیں جن پر عملی طور پر کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا اور ان میں واٹر ایکٹ 2020 بھی شامل ہے کیونکہ اس قانون کے تحت کمیشن اور اتھارٹی کا قیام جب تک عمل میں نہیں لایا جاتا تب تک اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا بلکہ اس قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں۔مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ نے عزم ظاہر کیا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قانون سازی کرنے کیساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے لیکن اگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی تو وہ عوام فلاح کیلئے اتھارٹی اور کمیشن کے قیام کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کریں گی۔
واٹر سینیٹیشن سروسز پشاور کا مؤقف
واٹر سینیٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی) کے ترجمان حسن علی نے بتایا کہ زیر زمین پانی مکمل صاف اور پینے کا قابل ہوتا ہے لیکن کئی جگہوں پر پائپ لائن نہ صرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے بلکہ مختلف مقامات پر پائپ لائن سسٹم میں مسائل کی وجہ سے اکثر صارفین کو آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں تاہم ڈبلیو ایس ایس پی نے 400 میٹر پائپ لائن کو تبدیل کیا ہے۔حسن علی نے بتایا کہ شہر بھر میں 1500 میٹر سے زائد پائپ لائن سسٹم ڈبلیو ایس ایس پی کے زیر انتظام ہے جس کو مکمل تبدیل کرنے کیلئے حکومت کو اربوں روپے پراجیکٹ کی تجویز دی گئی ہے اور حکومت سے منظوری کے بعد شہر بھر کے پورے پائپ لائن سسٹم کو تبدیل کیا جائیگا تاکہ صارفین کو پینے کا صاف پانی میسر ہوسکے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا صاف پانی فراہم کرنے کیلئے منصوبہ
ایشیائی ترقیاتی بینک سے معلومات تک رسائی درخواست کے تحت حاصل کردہ دستاویز اور معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا کی شہری آبادی میں صرف 42 فیصد لوگوں کو پائپ لائن سسٹم کے ذریعے عام طور پر دن میں صرف 6 گھنٹے کیلئے پانی دستیاب ہوتا ہے تاہم ناقص دیکھ بھال اور پائپ نیٹ ورکس میں نمایاں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے آلودہ پانی مل رہا ہے جس کی وجہ سے خواتین پر اضافی بوجھ پڑتا ہے کیونکہ انہیں پھر پانی خریدنا یا ذخیرہ کرنا پڑتا ہے اسلئے ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے پانچ بڑے شہروں کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئےخیبرپختونخوا سٹیز امپرومنٹ پراجیکٹ کے نام سے 500 ملین ڈالر سے زائد کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جو 2028 میں مکمل ہوگا۔ منصوبے کا مقصد دیگر امور میں معاونت کیساتھ ساتھ صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں میں کمی کیسے آ سکتی ہے؟
وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے ماتحت کام کرنیوالے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر)کے پشاور ریسرچ سنٹر کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ تحقیق اور ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کیمطابق جاپان کی صرف 30 دیہی بستیوں میں پانی کی فراہمی کے نئے پائپوں کی تنصیب کے بعد آنتوں کی متعدی بیماریوں میں 72 فیصد اور آنکھوں کی متعدی بیماریوں میں 64 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ شیرخوار اور چھوٹے بچوں کی شرح اموات 52 فیصد تک گر گئی۔اسی طرح بھارت کے اترپردیش میں واٹر ورکس، سیوریج اور صفائی ستھرائی میں بہتری لانے کے بعد ہیضہ کی وجہ سے اموات کی شرح میں 74 فیصد، ٹائیفائیڈ کی شرح میں 63 فیصد اور پیچش کی شرح میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی۔
آلودہ پانی پینے سے بچنا کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر بشریٰ خان نے اپنی ریسرچ میں تجویز دی ہے کہ لیک پائپوں کو تبدیل کرکے پانی کے ٹینکیوں کو وقفے سے دھونے اور کلورینیشن کی جائے جبکہ آلودگی سے بچنے کیلئے استعمال سے پہلے پینے کے پانی کو ابالنا چاہئیے۔
ایکوا ورلڈ پرائیویٹ لمیٹڈ خیبرپختونخوا کے ڈسٹریبیوٹر محمد علی کا ماننا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے تجویز کردہ پانی میں ٹوٹل ڈیزالوڈو سالڈ (ٹی ڈی ایس) 300 پارٹس پر ملین (پی پی ایم) سے کم ہونا لازمی ہے لیکن پشاور میں کہیں پر بھی ٹی ڈی ایس 300 پی پی ایم سے کم نہیں آیا اسلئے پشاور میں پینے کا پانی مضر صحت ہے جس سے بچنے کیلئے گھر میں خود پانی فلٹر لگانا سب سے بہترین طریقہ ہے۔محمد علی کے مطابق پانی فلٹر پر تقریبا 50 ہزار روپے خرچ آتا ہے جس سے روزانہ 100 گیلن یا 350 لیٹر سے زائد پینے کا پانی حاصل کیا جاسکتا ہے اور فلٹر کے ذریعے ٹی ڈی ایس لیول بھی 100 پی پی ایم تک آتا ہے جو ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق ہے۔
یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ موحولیاتی سائنس کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعیدہ یوسف نے بشریٰ خان اور محمد علی کے تجاویز کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ طریقوں کو اپنانے کیساتھ ساتھ مارکیٹ میں دستیاب جراثیم کش ادویات (کیمیکل ڈس انفکٹ) کو پانی میں ڈال کر بھی صاف پینے کا پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
Comments are closed on this story.