Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ٹرمپ صدارتی مباحثے میں شرکت کرنے کے بجائے آن لائن انٹرویو دینے پہنچ گئے

ڈونلڈ ٹرمپ کی کیپیٹل ہاؤس پر حملہ کرنے والے اپنے حامیوں کی تعریف
شائع 24 اگست 2023 03:27pm

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی مباحثے میں شرکت کے بجائے انٹرویو دینے پہنچ گئے اور وہاں جاکر اپنے حامیوں کی تعریف کی جنہوں نے 2 برس قبل 6 جنوری کو کیپیٹل ہاؤس پر حملہ کیا تھا۔

اپنے پورے سیاسی کیریئر میں تنازعات کا شکار سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ روز ہونے والے پہلے ریپبلکن صدارتی پرائمری مباحثے میں شریک نہیں ہوئے اور آن لائن انٹرویو دینے فاکس نیوز کے سابق میزبان ٹکر کارلسن کے دفتر پہنچ گئے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ نے صدارتی انتخابات کے نتائج کالعدم قرار دینے کےالزامات کا اعتراف کرلیا

کارلسن کے ساتھ یہ انٹرویو بدھ کی رات ریپبلکن صدارتی پرائمری مباحثے کے نشر ہونے سے 5 منٹ پہلے ایکس ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا تھا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آن لائن انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ وہ ملواکی میں پہلے ریپبلکن صدارتی مباحثے سے باہر بیٹھ رہے ہیں کیونکہ ان کے رائے شماری کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے حریفوں سے کہیں آگے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے انٹرویو میں اپنے حریفوں پر حملوں اور 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہاؤس پر حملہ کرنے سے قبل اپنے حامیوں کے ہجوم کی بھرپور تعریف کی، اور کہا کہ “میں نے ایسا جذبہ اور اتنا پیار کبھی نہیں دیکھا، اور ان لوگوں کی طرف سے ہمارے ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کے خلاف اس طرح کی نفرت کبھی نہیں دیکھی۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالتی کارروائی کو انتخابی عمل میں مداخلت قرار دے دیا

ٹرمپ نے اپنے کچھ حریفوں کو تنقید کر نشانہ بناتے ہوئے آرکنساس کے سابق گورنر آسا ہچنسن کو ’نازیبا‘ قرار دیا، اور انہیں نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی کے ساتھ مباحثے کے اسٹیج پر نہ آنے والے شخص کی مثال کے طور پر پیش کیا۔

(کرسٹی اور ہچنسن دونوں ہی ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔)

سابق امریکی صدر نے مباحثے میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ملواکی مباحثے کے اسٹیج پر دیگر امیدواروں کے ساتھ شرکت کرنا کوئی مشکل نہیں، لیکن کیا مجھے وہاں ایک دو گھنٹے بیٹھنا چاہئے جہاں مجھے ایسے لوگوں کی جانب سے ہراساں کیا جائے جنہیں صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا، کیا مجھے ایک ایسے نیٹ ورک پر ایسا کرنا چاہئے جو خاص طور پر میرے لئے دوستانہ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا میں نئی تاریخ رقم، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد

ٹرمپ پر 2020 کے انتخابات میں شکست کو تبدیل کرنے کی کوششوں سے متعلق چار مختلف مجرمانہ مقدمات میں بڑھتے ہوئے قانونی خطرات کا سامنا ہے، ان پر خفیہ دستاویزات کا غلط استعمال کرنے اور غیر شادی شدہ تعلقات کے الزامات کو چھپانے کے لئے رقم کی ادائیگیوں کو چھپانے کے الزامات شامل ہیں۔

تاہم رائے شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ قانونی چیلنجوں کے باوجود، ریپبلکنز کے درمیان ان کی حیثیت مضبوط ہے۔

دوسری جانب ٹکر کارلسن کو دیے گئے ان کے انٹرویو کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ چھوڑنے کے بعد سے ہی شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں فاکس نیوز غیر منصفانہ کوریج کررہا ہے، جب کہ فاکس نیوز نے اپنے میزبان ٹکر کارلس کو رواں برس کے اوائل میں برطرف کردیا تھا، اس طرح دونوں ہی فاکس نیوز کے حریف شمار کئے جارہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے مباحثے میں شرکت نہ کرنے کے اعلان سے قبل فاکس نیوز کی متعدد شخصیات اور ایگزیکٹوز نے انہیں اس مباحثے میں شرکت کی ترغیب دی تھی، اور اس نیٹ ورک کے بہت سے میزبانوں نے گزشتہ برسوں کے دوران ٹرمپ کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، اسکے باوجود صدارتی مباحثے میں شرکت کے بجائے کارلسن کے ساتھ بیٹھنے کا ان کا فیصلہ نیٹ ورک کو ایک پیغام بھیجنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ بدھ کے روز ہونے والے صدارتی مباحثے کے اسٹیج پر بہت سے امیدواروں نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو قبول کیا ہے، جن میں ان کے قریبی حریف ، فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سانٹس بھی شامل ہیں، جنہوں نے ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر عمل کرنے کے لئے کافی دور نہیں گئے ہیں۔ تین دیگر امیدواروں نے ٹرمپ کے لیے کام کیا: مائیک پینس، ان کے نائب صدر۔ نکی ہیلی، جو اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی، جنہوں نے 2016 اور 2020 میں ٹرمپ کو مباحثوں کی تیاری میں مدد کی اور مختصر طور پر 2016 میں ان کی عبوری ٹیم کی قیادت کی۔

ڈیموکریٹک کانگریس کے سابق رکن اور صدر جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے شریک چیئرمین سیڈرک رچمنڈ نے منگل کے روز نامہ نگاروں کو بتایا، “وہ سب ایک ہی پلے بک سے کھیل رہے ہیں اور وہ سب وہی غیر مقبول عہدوں پر فائز ہیں جن کی قیادت ڈونلڈ ٹرمپ نے کی تھی اور وہ اس پارٹی کو انتہا تک لے جا رہے ہیں۔ اس لیے چاہے وہ اسٹیج پر ہوں یا نہ ہوں، ان کا انتہا پسندانہ ایجنڈا یہی ہوگا۔

Donald Trump

Trump election case