عمران کے مقدمات لاہور یا پشاور منتقلی کیلئے سُپریم کورٹ میں درخواست، وکلاء کو ملاقات کی اجازت
ایک طرف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کے وکلاء کو جیل میں ان سے ملاقات کی اجازت دے دی۔
عمران خان کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو میرے خلاف تمام مقدمات کی سماعت سے روکا جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ میرے تمام مقدمات لاہور یا پشاور منتقل کیےجائیں اور عدالتی فیصلہ ہونےتک مقدمات کی سماعت سے روکا جائے۔
سپریم کورٹ میں یہ درخواست آرٹیکل 186 اے کے تحت ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کی وساطت سے دائر کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی کی مزید ممکنہ گرفتاریوں کے خلاف درخواست رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کرواپس کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس نوعیت کی براہ راست درخواست نا قابل سماعت ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے حکام کو چیئرمین پی ٹی آئی سے سینئر وکلا بابر اعوان اور لطیف کھوسہ کو ملاقات کی اجازت دینے کی ہدایات جاری کر دیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی اور 24 اگست کو دلائل دینے کی ہدایت جاری کردی۔
عدالت نے کہا کہ جیل اتھارٹیز بابر اعوان اور سردار لطیف کھوسہ کو اٹک جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دیں۔ بابر اعوان کو آج ایک بجے سے تین بجے تک جبکہ سردار لطیف کھوسہ کو دو بجے چیئرمین پی ٹی آئی سے جیل میں ملوایا جائے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ سزا معطلی درخواست پر دلائل کے لیے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دو ہفتوں کی مہلت طلب کی جس کی اپیل کنندہ کے وکلا نے سختی سے مخالفت کی۔ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کے وکیل کو وقت دیا جاتا ہے، مزید سماعت 24 اگست کو ہو گی۔
Comments are closed on this story.