گجرنالہ متاثرین کو 2 ماہ میں ادائیگی کا حکم، وزیراعلیٰ سندھ کیخلاف توہین عدالت برقرار
سابق وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے گجرنالہ متاثرین کو 2 ماہ میں ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جب تک نگران حلف نہیں لیتا مراد علی شاہ ہی صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سابق وزیر اعلی مراد علی شاہ کے خلاف گجرنالہ کیس میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، مراد علی شاہ، میئر کراچی، چیف سیکریٹری اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی ایشو متاثرین کی بحالی اور مالی امداد کا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے موقف پیش کیا کہ 45 ہزار روپے کے سالانہ 4 چیکس ملنے چاہیے تھے، لیکن جنہیں چیک ملا انہیں صرف 2 چیکس ملے۔
عدالت نے میئر کراچی اور وزیراعلیٰ سندھ کو حکم دیا کہ آپ آگے آجائیں۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ متاثرین کی تعداد 6 ہزار 932 ہیں، متاثرین کا تعلق گجرنالہ، محمودآباد اوراورنگی نالا سے ہے، 2 ٹرانزیکشنز ہو چکی، تیسری تیار ہے، بیشتر متاثرین ابھی تک چیکس لینے نہیں آئے، اور کچھ لوگ تیسرا اور چوتھا چیک بھی لے چکے ہیں۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کوئی فوکل پرسن نہیں، لوگ کس سے رابطہ کریں، لوگ پریشان ہیں آپ نے بھی دیکھا ہوگا، آپ میئر ہیں آپ کی ذمہ داری ہے یہ مسئلہ حل کریں۔
عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سی ایم صاحب آپ کی بھی ذمہ داری تھی کیا کیا آپ نے۔
مراد علی شاہ نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ میں نے سی ایم ہاؤس چھوڑ چکا ہوں اور دوسرا وزیراعلی آ چکا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب تک نگراں حلف نہیں لیتا آپ ہی وزیراعلی سندھ ہیں۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ وفاق نے 36 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا، دسمبر 2020 میں کوآرڈینیشن کمیٹی بنائی، اور پھر یوٹرن لے لیا، پھر کہہ دیا ہم فنڈز نہیں دیں گے، سارا ملبہ سندھ حکومت پر ڈال دیا، ہم نے متاثرین کو بسانے کیلئے زمین کی بھی نشاندہی کی تھی۔
درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا تھا کہ سندھ حکومت کو خود فنڈز کا انتظام کرنا ہو گا، سی ایم نے عدالت میں انڈر ٹیکنگ دی تھی کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کریں گے، انہوں نے یقین دلایا تھا کہ بحالی ہوگی لوگوں کو بسایا جائے گا، اس لئے سپریم کورٹ نے مکانات گرانے کی اجازت دی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سی ایم صاحب عدالتی حکم میں آپ کی یقین دہانی اور انڈرٹیکنگ موجود ہے۔
مراد علی شاہ نے موقف دیا کہ ہم نے پہلے بھی لوگوں کو بحال کیا ہے اور ہم متاثرین کی بحالی پر یقین رکھتے ہیں، ہم نے دس ارب روپے کی اسکیم بنادی، کنسلٹنٹس مقرر کیے اور دو چیکس بھی دے دیئے، بدقسمتی سے ہم نے سیلاب کی بڑی تباہی کا سامنا کیا، بحالی پر وفاقی حکومت اور امدادی اداروں کے ملا کر 66 ارب روپے خرچ ہوئے، میں اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا پر معاملہ کابینہ میں لے کر جاتا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ آپ سپریم کورٹ کے سامنے رکھتے، آپ نے تو عدالت میں انڈر ٹیکنگ دی تھی، اب آگے بڑھیں اور معاملہ حل کرنے کی طرف آئیں، پہلے دو چیکس دیے ہیں اور اب مزید چیکس دینے کی یقین دہانی کرائیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ میری مدت ختم ہو رہی ہے، اگلے وزیراعلی کو بتا کر جاؤں گا۔
میئر کراچی نے کہا کہ ہم رقم دینےکیلئے تیار ہیں اور مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ تیار تو ہیں مگر مسئلہ تو حل کریں، پیسے کیسے دیں گے؟طریقہ تو بتائیں۔
میئر کراچی نے کہا کہ متاثرین کی تصدیق کا معاملہ ہے، چیکس تیار ہیں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم لینے والے کترا رہے ہیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ شام 6 بجے تک ہوں، ایک ارب روپے کی منظور دے دیتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کو جو فیصلہ لینا ہے وہ لیں، لوگوں کا مسئلہ حل کریں، سی ایم صاحب یہ آپ کے لوگ ہیں ان کا مسئلہ حل کریں، یہ چیکس دیں اور متاثرین کو بسانے سے متعلق بھی بتائیں،بتائیں کہاں بسائیں گے اور کب تک کریں گے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ ایم ڈی اے کی حدود میں زمین کی نشاندہی و منظوری ہو چکی ہے، بہتر ہو گا متاثرین کو مکان بنانے کیلئے کیش یا چیک دیا جائے۔
چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ گھر بنا کر دینے کی ہماری تاریخ اچھی نہیں رہی، لوگ ترجیح دیتے ہیں انہیں رقم دی جائے وہ خود گھر بنائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چیک تقسیم کی ذمہ داری کمشنر کراچی کو دیتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کمشنر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کمشنر صاحب آگے آئیں ، پیسے دینے کی بات آے تو آپ پیچھے چھپ جاتے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ توہین عدالت کی کارروائی کوعمل درآمدمیں تبدیل کیا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کی درخواست سننے کیلئے کیس مارک کیا گیا۔
عدالت نے متاثرین کو بقیہ 2 چیکس ایک ماہ میں ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ متاثرین کو 90 ہزار روپے کے بقیہ چیکس 30 دن میں ادا کیے جائیں، اور چیکس کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔
عدالت نے رقم کی بروقت تقسیم اور شکایات سننے کیلئے ایڈیشنل کمشنر کراچی کو فوکل پرسن مقرر کردیا، اور ریمارکس دیئے کہ متاثرین کو شکایت ہو تو ایڈیشنل کمشنر کراچی سے رابطہ کرسکتا ہے، ان دونوں آپشنز سے متعلق اخبارات میں اشتہارات شائع کروائے جائیں۔ عدالت نے پیش رفت رپورٹ 15 روز میں طلب کرلی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے ایک بار پھر عدالت سے استدعا کی کہ وزیراعلی ٰکو حاضری سے استثنیٰ دے دیں۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم مراد علی شاہ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے، اور ججز اور وزیراعلی سندھ کا خوشگوار مکالمہ بھبی ہوا۔ جس کے بعد عدالت نے مراد علی شاہ کو حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ نہیں چاہتے کہ لوگوں کو بے گھر کریں، بدقسمتی سے لوگوں کو بے گھر کیا گیا۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ شہری سیلاب سے اس شہر کو تو بچانا ہوگا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ چاہتے ہیں کہ وزیراعلی کے خلاف توہین عدالت درخواست نمٹا دی جائے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ فی الحال توہین عدالت نہیں نمٹا سکتے، دیکھنا ہوگا کہ فیصلے پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی شخص ہیں عدالت آنا کیا مشکل ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ عدالت جب بلائے گی میں حاضر ہوں گا۔ جس پر جسٹس سید حسن اظہر رضوی آپ سیاسی آدمی ہیں، یہاں آنے سے تو آپ کو سیاسی فائدہ ہوگا۔ مراد علی شاہ نے مسکرا کر جواب دیا کہ مجھے ایسا سیاسی فائدہ نہیں چاہیے۔
Comments are closed on this story.