مسجد کے اندر سینے تک سیلابی پانی میں ڈوبے نمازی، تصویر کی حقیقت کیا ہے
پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک تصویر نمودار ہوئی ہے جس میں ایک مسجد کے اندر نمازی سینے تک ڈوبے ہوئے ہیں اور انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں۔ اس تصویر پر بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ شاید یہ لوگ بلاوجہ اپنے آپ کو تکلیف دے کر پانی سے بھری مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ تاہم اس مسجد کی کہانی کچھ اور ہے جوشاید کئی لوگوں کے اندازے سے زیادہ حیرت انگیز ہو۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر پر ردعمل میں کراچی میں مقیم معروف صحافی فیض اللہ خان نے کہا کہ ”یہ دین کی وہ تشریح ہے جس کا دین نے بھی کبھی تقاضا نہیں کیا۔ بارش میں غالباً ابن عباس کا فتویٰ تھا کہ بجائے مساجد کے گھروں میں نماز ادا کی جائے۔ سفر و حضر میں دو وقت کی نمازیں بھی جمع کی جاسکتی ہیں۔“
ایک ٹوئیٹ میں فیض اللہ نے لکھا کہ اب اگر کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے زبردستی خود کو تکلیف ڈالنے پہ تلاہو تو کیا کریں؟
تاہم جب ”آج نیوز“ نے فیکٹ چیک کیا تو حقیقت کچھ اور نکلی۔ پھر اس مسجد کے پیچھے ایک ایسے امام کا قصہ بھی سامنے آیا تو تیر کر یہاں پہنچتا تھا اور ایک تیرتی ہوئی مسجد کی کہانی بھی آشکار ہوئی۔
آج نیوز کے ڈیجٹل نیوز روم نے ریورس امیج سرچ کے ذریعے یہ معلوم کیا کہ تصویر کہاں اور کن حالات میں لی گئی تھی اور کس نے بنائی۔
معلوم ہوا کہ یہ تصویر بنگلہ دیشی فوٹوگرافر سرور حسین نے 2021 میں بنائی تھی اور اسے آئی پی اے فوٹوگرافی ایوارڈز میں ماحولیاتی صحافت کے ذمرے میں انعام مل چکا ہے۔
یہ تصویر بنگلہ دیش کے جنوب مغربی ضلع ساتکھیرا میں بنائی گئی جو کھلنا ڈویژن میں آتا ہے۔
ساتکھیرا ایک ساحلی علاقہ ہے جو اپنے مینگروز کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس نشیبی علاقے میں سیلابی پانی کئی دیہاتوں کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
سرور نے 8 اکتوبر 2021 کو جب یہ تصویر بنائی تو علاقے کے نمازی مسجد میں جمع ہو کر رحم کی دعا مانگ رہے تھے تاکہ وہ سیلابی پانی کی تباہی سے محفوظ رہیں۔
فوٹوگرافی مقابلے کے لیے تصویر بھیجتے ہوئے سرور نے لکھا کہ اس دعا کے کچھ دن بعد سمندر کی انتہائی اونچی اور تیز لہروں کے سبب یہ مسجد منہدم ہوگئی۔ جس کے ذمہ دار ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت ہیں۔
تیراک امام اور تیرنے والی مسجد
بیت النجات جامع مسجد ساتکھیرا ضلع کے گاؤں پرتاپ نگر میں دریائے کھولپتوا کے کنارے واقع تھی۔ 2021 میں یہاں سیلابی صورت حال پیدا ہوئی اور پھر اگست 2021 میں دریائے کھولپتوا کے حفاظتی پشتے ٹوٹ گئے۔ پانی ایک بڑے علاقے میں داخل ہوگیا۔ کئی گھر تباہ ہوئے۔ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق آخری دو مہینوں میں اس مسجد تک نمازیوں کا پہنچنا ممکن نہیں رہا۔ صرف امام مسجد معین الرحمان تیر کر یہاں آتے تھے اور اذان دے کر نماز ادا کرتے۔
نو اکتوبر کی صبح فجر کے بعد یعنی تصویر لیے جانے کے صرف ایک روز بعد یہ مسجد دریا کی لہروں کی نذر ہوگئی۔
مسجد کے گرنے سے پہلے ہی چٹاگانگ کی الجاج شمس الحق فاؤنڈیشن نے علاقے کے لوگوں کو ایک تیرتی ہوئی مسجد کا تحفہ دے دیا تھا۔ یہ مسجد کشتیوں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی اور اس پر 50 یا 60 افراد نماز ادا کرسکتے تھے۔
کیا پانی میں ڈوبی مسجد میں نماز ہوئی
ساتکھیرا کی اس مسجد میں پانی آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا۔ اس دوران جہاں تک ممکن ہوا لوگ نماز جمعہ کے لیے یہاں آتے رہے۔ اگست سے پہلے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت مسجد میں جمعہ پانی گھٹنوں تک تھا اور لوگ نماز جمعہ یہاں پر ادا کر رہے تھے۔
جون 2021 میں بنگلہ ٹریبون نے لکھا کہ علاقے میں کوئی بھی خشک جگہ نہیں بچی لہذا جمعہ 25 جون کو پرتاپ نگر کے مسلمان ایک بار پھر کمر تک پانی میں کھڑے ہوئے تاکہ نماز جمعہ ادا کر سکیں۔
بنگلہ ٹریبون کو لوگوں نے بتایا کہ 36 ہزار آبادی والے اس علاقے میں میلوں تک پانی ہی پانی ہے اور مساجد، مندر، اسکول و مدرسے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اخبار نے لکھا کہ علاقہ رہنے کے قابل نہیں رہا اور کئی خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔
Comments are closed on this story.