اسمبلی تحلیل ہوتے ہی سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز قانون 2023 کو کالعدم قرار دے دیا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز قانون 2023 کو کالعدم قرار دے دیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، بینچ نے متفقہ طورپر قراردیاکہ اس قانون کی کوٸی قانونی حیثیت نہیں ایکٹ اختیارات سے تجاوز کرکے بنایا گیا۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔ بینچ کے دیگر2 اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے متفقہ فیصلے میں ایکٹ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ اختیار سے تجاوز کرکے بنایا گیا، سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹس ایکٹ آٸین سے متصادم ہے جس کی کوئی قانون حیثیت نہیں۔
بینچ نے متفقہ طور پر ایکٹ کے خلاف دائرتینوں درخواستوں کو قابل سماعت قراردے دیا۔
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز قانون 2023 کے خلاف 2 مئی کو 3 درخواست گزاروں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 6 سماعتوں میں تمام فریقین کو سننے کے بعد 19 جون کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مزید پڑھیں
87 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری، پارلیمنٹ پر عدلیہ کو ’بےدخل‘ کرنے کا الزام
”ریویو ایکٹ کا محفوظ فیصلہ سنانے کے لئے قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا گیا“
سپریم کورٹ کا فیصلہ: کیا نواز شریف اورجہانگیر ترین الیکشن میں حصہ لے پائیں گے
پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس: ’چڑیاں شاید کوئی پیغام لائی ہیں‘
سپریم کورٹ ریویوآف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 14 اپریل کو قومی اسمبلی جبکہ مئی میں سینیٹ نے منظور کیا تھا، 29 مئی کو صدرعارف علوی کے دستخط کے بعد قانون بن گیا تھا، جس کے تحت آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں پرنظرثانی کا دائرہ کار آرٹیکل 185 کے تحت ہوگا ، نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلے کرنے والے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔
جسٹس منیب اختر کا فیصلے میں اضافی نوٹ
سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کو کلعدم قرار دینے کے فیصلے میں 3 رکنی بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے فیصلے میں اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
جسٹس مینب اختر نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اپیل اور نظرثانی مترادف نہیں بلکہ دو مختلف چیزیں ہیں، ان کے مطابق پارلیمان کاقانون سازی اور سپریم کورٹ کے رولز بنانے کے اختیارات برابر ہیں، ان کے مطابق پارلیمان کی سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولزکوغیرمؤثر نہیں کیا جاسکتا۔
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تین کے مقدمات کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا اور اپیل سننے والے بینج میں ججز کی تعداد کیس کا فیصلہ دینے والے بینج میں شامل ججوں سے زائد ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے 23 مارچ 2023 کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کردیے تھے جو 30 اپریل بروز کو شیڈول تھے، اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فیصلہ آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا گیا۔
فیصلے کے ردعمل میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے 25 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
واضح رہے کہ پنجاب انتخابات کیس میں حکومت کی جانب سے ریویو آف ججمنٹس ایکٹ پیش کر کے کیس سننے والے بینچ پراعتراضات اٹھائے گئے تھے اور نئے قانون کے تحت عوامی مفاد کے مقدمات میں نظرثانی اپیلز لارجر بینچ میں سننے کا قانون بنایا گیا تھا۔
نواز شریف اورجہانگیرترین کی اُمیدوں پر پانی پھرگیا؟
ریویو آف ججمنٹس ایکٹ سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کو بہت بڑا ریلیف ملا تھا۔ اس قانون کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے تھے۔
اس قانون کے تحت آرٹیکل 184/3 کے تحت دیئے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق مل گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 2017 میں دونوں کو تاحیات نااہلی کی سزا سنائی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ انہیں زیادہ متاثر نہیں کرے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ریویو آف ججمنٹس ایکٹ کیس کی آخری سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل اور درخواست گزاروں نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی دلائل دینے کی استدعا کی۔حکم نامہ کے مطابق الیکشن کمیشن درخواستوں میں فریق نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں وہ عدالتی معاون کے طور پر معروضات جمع کراسکتے ہیں۔
حکم نامے میں بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف ججمنٹس ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرایکٹ
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 26 مئی کو صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد 2023 قانون بن گیا تھا جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا۔ مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظورکیا گیا تھا۔
نئے قانون کے تحت آرٹیکل 184/3کے تحت فیصلوں پر 60 روز کے اندر نظر ثانی اپیلیں دائر کی جاسکتی تھیں جن کی سماعت فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ نے کرنی تھیں۔
آج نیوز کے سینیئراینکرپرسن شوکت پراچہ کے مطابق اس فیصلے کے اثرات بہت زیادہ نہیں ہوں گے کیونکہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال ستمبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔
اس قانون کی ایک اور اہمیت پنجاب کے انتخابات کے حوالے سے تھی تاہم انہوں نے کہا اس حوالے سے فیصلے کی بھی اب اہمیت نہیں رہی ۔
سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کا حکم دیا تھا اور اس نئے قانون کے تحت عدالت عظمی کے حکم نامے پر نظر ثانی کا راستہ کھل گیا تھا۔ تاہم پنجاب الیکشن کی حد تک معاملہ اب اہم نہیں رہا۔
Comments are closed on this story.