Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

پاکستان میں انتخابات اب دور چلے گئے، غیرملکی ماہرین

انتخابات کی راہ میں کون سی قانونی پیچیدگیاں حائل ہیں؟
شائع 06 اگست 2023 10:50am
تصویر: اے اہف پی
تصویر: اے اہف پی

چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری اور نئی مردم شماری کی اجازت کے بعد غیر ملکی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتخابات اب دور چلے گئے ہیں۔

اگر قومی اسمبلی 9 اگست کو تحلیل ہو جاتی ہے تو عام انتخابات 8 نومبر تک ہوں گے لیکن اب مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے فیصلے کے نتیجے میں یہ انتخابات ”مہینوں“ کے لیے مؤخر ہو سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان دونوں نے نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں اپنے اعلان کردہ مؤقف کو تبدیل کر دیا ہے، جس سے اگلے انتخابات 2023 سے آگے بڑھ کر ممکنہ طور پر 2024 کے درمیانی مہینوں تک ملتوی ہوجائیں گے۔

قانونی ماہر اور سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن قانونی طور پر نئی حد بندی کرنے کا پابند ہے، جس میں کم از کم چار ماہ لگیں گے۔

الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 17(1) کے تحت، الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی، تمام صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے علاقائی حلقوں کی ہر مردم شماری کے بعد نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنی ہوتی ہیں۔

اس کے بعد الیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے اور دیگر متعلقہ اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہوگی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات اگلے سال مارچ یا اپریل تک ملتوی ہوسکتے ہیں۔

اس کا بظاہر مطلب یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی طرح مرکز، سندھ اور بلوچستان میں آنے والا نگراں سیٹ اپ بھی ایک توسیعی مدت کے لیے آئے گا۔

گزشتہ ماہ کم از کم دو وفاقی وزراء نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے سرکاری نتائج کی اطلاع نہیں دی جائے گی اور انتخابات وقت پر ہوں گے۔

غیر ملکی ماہرین کی رائے

واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگلمین نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں لکھا کہ ’کچھ عرصہ قبل، پاکستان کا سیاسی بحران تھوڑا سا کم ہوتا ہوا نظر آیا، حکومت نے عہدہ چھوڑنے اور انتخابات کی تیاری کے لیے نگراں حکومت کے لیے راستہ بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن اب خان کی دوبارہ گرفتاری اور اس بات کا اشارہ کہ انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے، کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے‘۔

ایک سوال کے جواب میں مائیکل کوگلمین نے لکھا، ’امریکا پاکستان کی ملکی سیاست میں مداخلت پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ پاکستان میں فوج کے ساتھ اس کے تعلقات بڑے ہیں۔‘

انہوں نے لکھا، ’ مجھے امید ہے کہ امریکا خاموش ہی رہے گا۔ پچھلی بار جب انہیں (عمران خان) گرفتار کیا گیا تھا تو اس (امریکہ) نے بہت کم ہی کچھ کہا تھا’۔

امریکا سے تعلق رکھنے والے دفاعی ماہر فاروق حمید خان کا پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’ حکومتی ذرائع سے میڈیا کو دیے گئے تمام اشارے بھی ٹیکنو کریٹ قیادت والی نگراں/ عبوری حکومت اور تاخیر سے ہونے والے انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس کا بنیادی مقصد معیشت کا رخ موڑنا، ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری، ڈالر کے ذخائر میں اضافہ وغیرہ ہے’۔

مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایک بار پھر سب کی نظریں سپریم کورٹ پر ہوں گی، جو بحران کے دوران ایک اہم کھلاڑی ہے اور جس نے چند اہم لمحات میں خان کا ساتھ دیا ہے۔‘

حلقہ بندیوں میں قانونی پیچیدگیاں

آئین کے آرٹیکل 51(3) کے تحت آخری سرکاری طور پر شائع ہونے والی مردم شماری کے مطابق ہر صوبے اور وفاقی علاقے کو اس کی آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی نشستیں مختص کی جاتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مقننہ کی ساخت میں کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے۔

نئی حلقہ بندی کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی، جو اسمبلی کی غیر موجودگی میں ممکن نہیں ہوگی۔

آئین کے آرٹیکل 51(5) میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستیں ہر صوبے، وفاقی علاقے اور دارالحکومت کو آبادی کی بنیاد پر، سرکاری طور پر شائع ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق مختص کی جائیں گی۔

اور پھر، یہاں تک کہ اگر موجودہ اسمبلی اجلاس میں ہو بھی تو اس کی موجودہ طاقت آئین میں ترمیم منظور کرنے کے لیے ناکافی ہے، اس لیے کہ پی ٹی آئی کے قانون ساز ایوان میں موجود نہیں ہیں۔

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 342 کے ایوان میں آئینی ترمیم منظور کرنے کے لیے کم از کم 228 ارکان کی منظوری ضروری ہے، جبکہ موجودہ اسمبلی اس تعداد سے واضح طور پر کم ہے۔

Pakistan Politics

general elections 2023

ELECTION COMMISION OF PAKISTAN (ECP)

CCI

Council on common interest