Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Awwal 1446  

داعش کی جے یو آئی سے نظریاتی جنگ، حملہ انتخابی سازش تھا؟

داعش خراسان کے خلاف پہلا فتویٰ جے یو آئی کے رہنماؤں نے دیا تھا
اپ ڈیٹ 31 جولائ 2023 03:46pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

باجوڑ میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں خودکش دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 54 ہو گئی ہے اور مختلف اسپتالوں میں 83 زخمی زیرِعلاج ہیں۔

سرکاری اداروں کے ذمہ داروں یا تجزیہ نگاروں کے اب تک سامنے آنے والی بیانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو واقعے میں داعش خیبرپختونخوا (آئی ایس کے پی) کے ملوث ہونے کی نشاندہی ہوئی ہے، جبکہ واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم دہشتگردوں کے خلاف درج کرلی گئی ہے۔

گزشتہ کچھ سالوں سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے علماء پر تواتر سے ہونے والے حملوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) ہی کیوں؟

یہ وہ بنیادی سوال تھا جو آج ڈیجیٹل نے پوچھا خطے میں دہشت گردی کے واقعات پر مسلسل نظر رکھنے والی دو اہم شخصیات، ماہر افغان امور اور سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور خراسان ڈائری کے بانی افتخار فردوس سے۔

رستم شاہ مہمند نے سوال کے جواب میں کہا کہ جے یو آئی کے نشانے پر ہونے کی وجہ داعش اور جے یو آئی کے درمیان نظریاتی اختلافات کا ہونا ہے۔ جس طرح افغانستان میں افغان طالبان کے مدمقابل داعش ہے، اسی طرح پاکستان میں داعش کو سب سے بڑا مسئلہ جے یو آئی سے ہے۔ اس لئے وہ جہاں اور جتنا ان کو نشانہ بنا سکتے ہیں وہ بناتے ہیں۔

رستم شاہ مہمند کے مطابق ایسے حملوں کی دو وجوہات ہوتی ہیں، ایک مدمقابل کو جانی نقصان پہنچانا۔ دوسرا معاشرے میں ہیجان اور خوف پیدا کرنا تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ دوسرے نظریات کے حامل شخص کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

رستم شاہ کا یہ بھی ماننا تھا کہ داعش کے پی کے پاس تعداد ذیادہ نہیں اور نہ ہی عوام میں ان کی کوئی مقبولیت ہے، بلکہ یہ ٹی ٹی پی (کالعدم تحریک طالبان پاکستان) کے کچھ لوگ ہیں جو سرحد کے آر پار کچھ حمایت یافتہ افراد کی بدولت سرحد کے اس پار اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ مخالف نظریات رکھنے والوں کو زک پہنچا کر اپنی آئیڈیالوجی کا پرچار کرتے رہیں۔

داعش اور جے یو آئی کا معاملہ تین نکات پر مبنی ہے

خراسان ڈائری کے بانی صحافی افتخار فردوس نے بھی اسے نظریات کی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ داعش اور جے یو آئی کا معاملہ تین نکات پر مبنی ہے۔

ایک اس کا آغاز کہ جب داعش خراسان بن رہی تھی تو ان کے خلاف پہلا فتوی جے یو آئی کے رہنماؤں نے دیا تھا، جس میں داعش کو خوارج کی جماعت کہا گیا تھا۔

دوسرا معاملہ، جے یو آئی افغان طالبان کی حامی اور دیو بند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو داعش کے مطابق واجب القتل ہیں۔

تیسری بات داعش کا یہ کہنا کہ خلافت کی بجائے جمہوریت پر یقین رکھنے والے خوارج ہیں اور جے یو آئی چونکہ جمہوریت اور نیشنل ازم پر یقین رکھتی ہے اس لئے یہ خوارج ہیں اور ان کا قتل واجب ہے۔

افتخار فردوس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے علاوہ داعش خراسان کے سربراہ ڈاکٹر شہاب المہاجر کا یہ بھی ماننا تھا کہ ان کی جماعت کے لوگوں کے دو ٹارگٹ ہونے چاہئیں، ایک وہ قبائلی رہنما جو آپ کے خلاف کھڑے ہوجائیں اور دوسرے وہ مذہبی اسکالر جو آپ کی مخالفت کریں۔ اور ان ساری باتوں کی بڑی تفصیل سے وضاحت داعش خراسان کے سربراہ ڈاکٹر شہاب المہاجر کی پشتو زبان میں شائع ہونے والی کتاب ”Asabato Jagara — The war of nerves“ میں ملتی ہے ۔

اب تک جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے 42 افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے کہ جن میں سے 23 کا تعلق باجوڑ سے ہے

افتخار کا یہ بھی کہنا تھا کہ باجوڑ کا واقعہ چونکہ بڑا تھا اس لئے سب کی نظر میں آگیا لیکن اگر ہم 2016 میں پشاور میں جے یو آئی کے رہنما کے قتل سے بات شروع کریں تو اب تک اس جماعت سے تعلق رکھنے والے 42 افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے کہ جن میں سے 23 کا تعلق باجوڑ سے ہے ۔

جے یو آئی پر حملے سے متعلق ایک اور تھیوری جو کل سے زبان زد عام ہے کہ عام انتخابات کی تاریخوں پر بات کے بعد حملے شروع ہوتے ہیں، خیبر پختونخوا کی دوسری بڑی جماعت کو ٹارگٹ کرنا کیا الیکشن میں اس کو باہر رکھنے کی پلاننگ کا حصہ ہے۔

لیکن رستم شاہ کا کہنا تھا کہ اگر کچھ دیر کے لئے اس تھیوری کو مان بھی لیں تو ان کے نزدیک یہ تو جے یو آئی کے فائدے میں ہے اور وہ اس نقطے کو عوام میں لے جاکر کیش کر سکتے ہیں، کیونکہ انکا ایک مذہبی فالوور ہے اور صوبے میں بھی جے یوآئی کی ہی آئیڈیالوجی کو فالو کرنے والوں کی اکثریت ہے، اس لئے عوامی سطح پر انہیں ہمدردی مل سکتی ہے اور اس بات پر لوگ جوق در جوق ان کی طرف آئیں گے، لیکن جے یو آئی فی الحال ڈیفینسِو رہ کر آگے بڑھنے کے موڈ میں ہے۔

یہی سوال جب افتخار فردوس سے کیا گیا تو انہوں نے اس کو صرف نظریات کی ہی جنگ کہا اور اسے کسی سیاسی عنصر یا آنے والے الیکشن کے ساتھ جوڑنے سے اتفاق نہیں کیا۔

Bajaur

JUIF

ISKP

BLAST IN BAJOR