جے یو آئی اجتماع پر حملہ داعش نے کیا، پولیس اور مظاہرین متفق
اتوار کو پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقے باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے جلسے میں ہونے والے خودکش دھماکے میں کم از کم 44 افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
دی گارڈین کے مطابق پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، لیکن ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے افغانستان میں سرگرم داعش اس حملے کے پیچھے ہو سکتی ہے، افسران ابھی بھی تفتیش کر رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی کا عملہ تحقیقات میں مصروف ہے اور ابتدائی تحقیقات واقعہ میں داعش خیبرپختونخوا کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
اتوار کو باجوڑ کے ایک بازار میں واقع ہال میں جے یو آئی ف کے 500 سے زائد کارکنان جمع تھے۔ دھماکے کی سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حملہ آور نے اسٹیج کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
کارکنان پارٹی کے ایک علاقائی رہنما عبدالرشید کی آمد کا اعلان کر رہے تھے کہ دھماکا ہوگیا، جس کے نتیجے میں ایک مقامی رہنما مولانا ضیاء اللہ جان بھی جاں بحق ہوگئے۔
صوبائی وزیر اطلاعات فیروز جمال نے امریکی خبر رساں ایجنسی ”ایسوسی ایٹڈ پریس“ کو بتایا کہ بم دھماکے میں اب تک 44 افراد ”شہید“ اور 200 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
باجوڑ کے ڈسٹرکٹ اسپتال اور ملحقہ علاقوں میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور کچھ مریضوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
حملے کے بعد امریکی صحافی مائیکل کوگل مین نے اتوار کو ٹوئٹر پر جاری پیغام میں لکھا، ’ افغانستان میں طالبان کے قبضے نے داعش کی طالبان دشمنی مٰں اضافہ کردیا ہے،جے یو آئی ف جزوی طور پر داعش خراسان کا ہدف رہی ہے کیونکہ اس کے کچھ رہنماؤں نے طالبان کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور طالبان کے موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔’
پاکستان کے ایک سینئیر صحافی اویس توحید لکھتے ہیں کہ، ’افغانستان کے صوبہ کنڑ کی سرحد سے متصل باجوڑ میں جے یو آئی ف کے جلسے میں مہلک دھماکہ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب سلفیوں اور دیوبندیوں کے درمیان جاری خونریز جھگڑے کی عکاسی کرتا ہے۔ سلفسٹ داعش خیبرپختونخوا کے نظریاتی شراکت دار ہیں اور کنڑ اور باجوڑ میں ان کی مضبوط موجودگی ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ، ’افغان طالبان نے کنڑ میں سلفیوں کو نشانہ بنایا ہے اور جوابی کارروائی میں دیوبندیوں (جے یو آئی ف ) کو سلفیوں یا داعش خیبرپختونخوا نے باجوڑ میں نشانہ بنایا ہے‘۔
اویس توحید کے مطابق ’باجوڑ میں دو سالوں میں جے یو آئی ف کے 30 مقامی علما ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہلاک ہوئے۔ سلفی اور داعش خیبرپختونخوا جے یو آئی ف کو ’اماراتی‘ کہتے ہیں، یہ اصطلاح افغان طالبان کے لیے استعمال ہوتی ہے۔‘
افغان خبر رساں ادارے ”خراسان ڈائری“ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’(افغناستان کی) علاقائی عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے باجوڑ میں بم دھماکے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جماعت الاحرار (جے یو اے)، تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) نے اپنے اپنے بیانات میں اس حملے کی مذمت کی ہے اور اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے‘۔
داعش کی مقامی شاخ نے حال ہی میں جے یو آئی ایف کے خلاف متعدد حملے کیے ہیں۔
پچھلے سال، داعش نے کہا تھا کہ اس جماعت سے وابستہ مذہبی علماء کے خلاف پرتشدد حملوں کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔
ملک کے شمال اور مغرب میں مساجد اور مدارس کا ایک بڑا نیٹ ورک داعش کے زیر انتظام ہے۔
داعش جے یو آئی ف پر ایک اسلامی گروپ ہونے کی وجہ سے منافقت کا الزام لگاتا ہے جو دشمن حکومتوں اور فوج کی حمایت کرتا ہے۔
جے یو آئی ف کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کے پاس ہے جنہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ایک سخت گیر شخص کے طور پر کیا تھا، لیکن حالیہ برسوں میں انہوں سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے لیے اپنی سیاسی شبیہہ کو نرم کیا ہے۔
Comments are closed on this story.