Aaj News

منگل, ستمبر 17, 2024  
12 Rabi ul Awal 1446  

ٹی او آرز طے کیے بغیر ٹی ٹی پی کو رسائی، خیبر پختونخوا میں حملے کیسے پھیلے

خیبرپختونخوا میں بھی حملوں کی شدت میں اضافہ کئی سوالات کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے
اپ ڈیٹ 25 جولائ 2023 12:00am
تصویر:  سابق قائم مقام انسپکٹر جنرل خیبرپختونخوا پولیس اخترعلی شاہ
تصویر: سابق قائم مقام انسپکٹر جنرل خیبرپختونخوا پولیس اخترعلی شاہ

خیپر پختونخوا پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جون 2022 اور جون 2023 کے درمیان شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، ٹانک، پشاور، اور باجوڑ میں خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔

ان 12 ماہ کے دوران 665 دہشت گرد حملے اور پہلا فوکس جنوبی اضلاع اور پھر سنٹرل پختونخوا سمیت تقریبا صوبہ بھرمیں بھی حملوں کی شدت میں اضافہ کئی سوالات کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔

آج ڈیجیٹل نے خیبرپختونخوا میں گذشتہ ایک سال میں ہونے والے حملوں کی ڈیجٹل میپنگ کی، تو دہشت گردوں کی طرف سے کچھ اضلاع میں حملوں کا ایک خاص ٹرنیڈ دیکھنے میں آیا، جس نے کچھ سوالات کو جنم دیا اور یہی سوالات ہم نے رکھے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار اسماعیل خان اور سابق قائم مقام انسپکٹر جنرل خیبرپختونخوا پولیس اخترعلی شاہ کے سامنے تاکہ جان سکیں کہ ایک سال میں بڑھتی دہشت گردی کے پس منظرمیں کیا ہے۔

اخترعلی شاہ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی یہ پرانی اسٹریٹجی ہے، اگر ہم ماضی میں بھی دیکھیں، تو آپکو کئی شواہد ملیں گے کہ انہوں نے ویرستان اور جانی خیل سمیت قریبی علاقوں سے آہستہ آہستہ خود کو منظم کیا۔ اسی دوارن دوسرے علاقوں میں بھی اپنا نیٹ ورک بناتے رہے اور جب دیکھا کہ وہاں بھی انہیں افرادی قوت مل رہی ہے، تو انہوں نے وہاں سے حملے شروع کردئیے۔

ابھی بھی جنوب سے سینٹرل کی طرف آنا اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت بھی ہے کہ ان کے پاس اب ان اضلاع میں بھی اتنی افرادی قوت ہے کہ وہ بڑی تعداد میں حملے کرسکتے ہیں۔

ڈیلی ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اور سینئر صحافی اسماعیل خان نے بھی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد شمالی وزیرستان سمیت جنوبی اضلاع میں کچھ عرصہ امن رہا لیکن جب جنوبی وزیرستان میں حملے شروع ہوئے، تو اس کا اثر ان اضلاع پر بھی آنا شروع ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ ان اضلاع کا آپس میں جڑا ہونا ہے، پھر اگر آپ لکی مروت، بنوں، ٹانک اور وزیرستان کو دیکھیں، تو یہاں کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں حکومت کی مستقل رسائی نہیں ہے، جو حملہ آوروں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، وہ 5 یا 6 موٹر سائیکل سواروں کی شکل میں آتے ہیں اور دیہی علاقوں میں ایسے تھانوں یا پوسٹوں کو نشانہ بناتے ہیں، جو ویرانے میں ہوں جہاں قریب آبادی بھی کم ہو تاکہ فوری کمک نہ پہنچ سکے، جبکہ انہیں فرار ہونے میں بھی آسانی ہو۔

اسماعیل خان نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ جنوبی اضلاع میں جتنے بھی حملے ہوئے وہ اسی اسٹریٹجی کے تحت ہوئے اور حملہ آوور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کے مطابق کم افراد کو انگیج کرنا فوری مقصد کے حصول کے لئے بھی اہم ہوتا ہے کیونکہ زیادہ لوگوں کو آرگنائز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر حملہ آواروں کی تعداد کم ہو تو فورا قریبی آبادیوں میں پناہ بھی لے سکتے ہیں اس میں مقامی افراد ان کو سہولت فراہم کرتے ہیں اور عموما حملے کے لئے رات کے وقت کا انتخاب کرتے ہیں۔ انہوں نے پشاور کے علاقے ریگی، سربند اور متنی کے حملے بھی اسی طرز کے تھے ۔

ٹی ٹی پی اور افغان طالبان سے متعلق خوش فہمی نقصان کا باعث بن گئی

دہشت گردی میں اچانک اضافہ کیسے ہوا، اس سوال پر سابق قائم مقام انسپکٹر جنرل خیبرپختونخوا پولیس اختر علی شاہ نے بتایا کہ افغان طالبان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ اور ٹی ٹی پی سے متعلق خوش فہمی ہمارے لئے نقصان کا باعث بنی۔

انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل وہ بیرونی فوجوں سے لڑ رہے تھے اور اس میں ہمارے ہاں کے ایلمنٹ بھی انکا ساتھ دے رہے تھے لیکن وہاں سے فراغت کے بعد جہاں ایک طرف ہم مذاکرات میں مصروف ہوگئے وہاں انہوں نے خود کو یہاں دوبارہ منظم کرنا شروع کر دیا۔

اختر علی شاہ نے کہا کہ ان کے سلیپر سیلز تو پہلے ہی سے یہاں موجود تھے اس لئے انہیں مشکل نہیں ہوئی، ان کے مطابق ٹی ٹی پی کا یہ پرانا طریقہ واردات بھی ہے کہ ادھر مذاکرات شروع کر کے ادھر خود کو طاقت ور بناؤ، اب کی بار تو ہم نے افغان طالبان کے آسرے پر ٹی او آرز طے کئے بغیر ہی انہیں علاقوں میں رسائی بھی دے دی اور یہی ہماری سب سے بڑی غلطی تھی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ہر علاقے میں تنظیم سازی کر کے گورنر مقرر کیے اور بھرتیاں کر کے تربیت تک فراہم کردی۔ جب وہ تیار ہو گئے تو انھوں نے حملے شروع کر دئیے۔

اخترعلی شاہ نے کہا کہ گذشتہ دو سال میں ہمیں بہت کچھ دکھائی دے رہا تھا کہ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے لوگ راتوں کو گشت کرتے نظر آتے تھے اور مقامی لوگ بھی خاموش تھے یوں لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا جو اب جگہ جگہ پھٹنا شروع ہو گیا ہے ۔

سینئر صحافی اسماعیل خان بھی لگ بھگ اسی رائے سے متفق نظر آئے کہ حکومت مذکرات میں پڑی رہی اور وہ ادھر تشکیل کرتے رہے جس سے انہیں نہ صرف مزید کمک ملی بلکہ انکی طاقت میں بھی اضافہ ہوا اور مقامی سطح پر سہولت کاروں نے انکا کام مزید آسان کر دیا اب ہر ضلع میں انہیں مدد حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ اب حملوں کا دائرہ بھی وسیع ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسماعیل خان کے مطابق یہ ایک ہی گروپ کی کارستانی ہے اور وہ ٹی ٹی پی ہی ہے۔

خیبر پختونخوا

KPK Police

Akhtar Ali Shah